اسیران جنگ کو غلام بنانے کا جواز

سوال: جاوید احمد غامدی صاحب کی راے یہ ہے کہ اسلام سے پہلے جنگی قیدیوں کو غلام لونڈی بنا لینے کا جو دستور تھا، قرآن مجید میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟

جواب: جناب جاوید احمد غامدی کی یہ رائے سورئہ محمد کی آیت ۴ پر مبنی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے جنگ کے نتیجے میں قید ہونے والے کفار کے حوالے سے یہ ہدایت کی ہے کہ یا تو ان پر احسان کرتے ہوئے انھیں چھوڑ دیا جائے اور یا ان سے فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے۔ ارشاد ہوا ہے:

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ

”پھر جب کفار کے ساتھ تمھاری مڈبھیڑ ہو تو خوب ان کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب اچھی طرح ان کی خون ریز ی کر چکو تو انھیں مضبوط باندھ لو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر رہا کر دینا۔ (ان کے ساتھ لڑائی جاری رکھو) یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔“

آیت بظاہر جنگی قیدیوں کے حوالے سے مسلمانوں کے اختیار کو دو باتوں میں محصور کر دیتی ہے، یعنی یہ کہ یا تو انھیں احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ چھوڑ دیا جائے اور یا ان سے فدیہ لے کر انھیں رہا کر دیا جائے۔ حصر کا یہ اسلوب بظاہر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسیران جنگ کو فدیہ لے کر یا احسان کے طو رپر آزاد کرنے کے علاوہ کوئی ان کے حوالے سے کوئی تیسرا طریقہ اختیار کرنا جائز نہ ہو۔ تاہم اس ہدایت کے سیاق وسباق کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً کا حصر کا اسلوب اسیران جنگ کو غلام بنانے کی ممانعت کے لیے نہیں، بلکہ ایک مختلف تناظرمیں استعمال کیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے زیر بحث ہدایت کی ترجمانی یوں کی ہے: ”یعنی اس کے بعد اگر یہ تمھارے ہاتھ سے چھوٹیں تو صرف دو ہی شکلوں سے چھوٹیں۔ یا تو تمھارے احسان کا قلادہ اپنی گردن میں لے کر یا فدیہ دے کر۔“ (تدبر قرآن ۷/۷۹۳)

میری طالب علمانہ رائے میں مولانا اصلاحی کی یہ رائے بے حد صائب ہے اور کلام کے موقع ومحل اور اس کے رخ کی نہایت درست ترجمانی کرتی ہے۔آیت کے موقع ومحل اور کلام کے دروبست سے واضح ہے کہ یہاں جنگی قیدیوں سے متعلق کسی قانون کا بیان پیش نظر نہیں، بلکہ اہل ایمان پر یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا انکار کرنے پر اہل کفر کو رسوا کرنے اور انھیں سزا دینے کے لیے اہل ایمان کو بطور آلہ وجارحہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا منشا یہ ہے کہ کفار کو اس جنگ میں خدا کا دشمن سمجھ کر میدان جنگ میں بھی ان کی خوب خون ریزی کی جائے اور پھر جب انھیں شکست ہو جائے تو قید کرنے یا قید سے آزا دکرنے کا معاملہ بھی پوری طرح ان کو نیچا دکھا کر اور ان کے کبر وغرور کو توڑ کر ہی کیا جائے۔ دشمن کے ساتھ جنگ میں ظاہر ہے کہ اسے زک پہنچانے کے یہی تین طریقے ہو سکتے ہیں اور قرآن نے یہاں یہ واضح کیا ہے کہ ان تینوں طریقوں میں دشمن کی کمر توڑنے، اسے زک پہنچانے اور اس کا حوصلہ توڑنے کے جذبے کا اظہار پوری طرح نمایاں ہونا چاہیے۔

اس تناظر میں دیکھیے تو ’اما منا بعد واما فدائ‘ میں حصر قیدیوں کو قتل کرنے یا غلام بنانے کے تقابل میں نہیں، بلکہ باعزت آزاد کرنے کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مقصود اس بات کی نفی کرنا نہیں کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے یا انھیں غلام بنا لیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ انھیں باعزت آزادی نصیب نہیں ہونی چاہیے۔ کلام کا یہ رخ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہاں مقصود اگر جنگی قیدیوں کے بارے میں کسی قانون کا بیان ہوتا تو اس کے لیے سادہ طریقے پر یہ کہنا کافی تھا کہ ایسے قیدیوں کو آزاد کر دینا ہی واحد قانونی آپشن ہے، چاہے بلا معاوضہ آزاد کیا جائے یا فدیہ لے کر، لیکن قرآن نے یہاں قیدیوں کو بلامعاوضہ آزاد کرنے کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہونے والا کوئی سادہ لفظ مثلاً ’تحریر‘ یا ’تسریح‘ نہیں، بلکہ ’منا‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔

کلام کا یہ محل اور رخ پیش نظر رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ یہاں قیدیوں کے بارے میں قتل اور غلامی کے آپشنز کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ متکلم کا مقصود دراصل یہ ہے کہ ان اہل کفر کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے کسی پہلو سے نرمی یا مسامحت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے، اس لیے اس نے انھی پہلووں کا ذکر کیا ہے جہاں اس کا خدشہ یا امکان ہو سکتا تھا۔ چنانچہ میدان جنگ میں انھیں تہہ تیغ کرنے میں رو رعایت کا امکان ہو سکتا تھا تو فرمایا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ خوب ان کی گردنیں ماری جائیں۔ قتل سے بچ جانے والوں کے بارے میں یہ امکان تھا کہ انھیں فرار ہونے دیا جائے تو فرمایا کہ نہیں، بلکہ انھیں خوب مضبوطی سے باندھ لیا جائے۔ پھر گرفتار کیے جانے والوں کے بارے میں یہ امکان تھا کہ انھیں باعزت طریقے سے رہا کر دیا جائے تو فرمایا کہ نہیں، ان کی رہائی بھی یا تو مسلمانوں کا ممنون احسان ہو کر عمل میں آنی چاہیے یا فدیہ ادا کر کے۔ چونکہ ان قیدیوں کے قتل کیے جانے یا غلام بنائے جانے کی صورت میں نرمی کا پہلو قدرتی طور پر مفقود ہے اور ان کا اختیار کیا جانا بدرجہ اولیٰ متکلم کے مقصود کو پورا کرتا ہے، اس لیے یہاں ان آپشنز کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں اگر ان کا ذکر کیا جاتا تو ظاہری طور پر اس کی ایک ہی صورت تھی، یعنی یہ کہ یہ کہا جاتا کہ ان قیدیوں کو قتل کرنے یا غلام بنانے ہی کو ترجیح دی جائے اور آزاد کرنے کا آپشن کم سے کم استعمال کیا جائے، لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوئی تحدید عائد کرنا بھی یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصود نہیں۔ پس ازروے بلاغت قتل اور غلامی کا ذکر کرنے کی یہاں نہ صرف یہ کہ ضرورت نہیں تھی بلکہ ایسا کرنا غیر ضروری اور غیر مناسب ہوتا۔

مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات میں جنگی قیدیوں کے بارے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا، اس میں قیدیوں کو بلامعاوضہ یا فدیہ لے کر رہا کرنے کے علاوہ بعض قیدیوں کو قتل کرنا اور بعض کو غلام بنا لینا بھی شامل ہے۔ چنانچہ آپ نے بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کر ا دیا۔ بنو قریظہ نے بدعہدی کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ پھر ان کے کہنے پر سعد بن معاذ کو حکم مقرر کیا گیا جنھوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے جبکہ ان کے عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، چنانچہ ان کے فیصلے کے مطابق ان کے مردوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر مسلمانوں کے مابین تقسیم کر دیا گیا۔ (بخاری، ۴۲۷۳، ۳۱۸۳) ان میں سے بعض قیدیوں کو مشرکین کے ہاتھوں بیچا بھی گیا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۸۰۱۸۱)

خیبر کی فتح کے موقع پر آپ نے یہود کے جنگی مردوں کو قتل کرا دیا جبکہ ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ ان میں حیی بن اخطب کی صاحبزادی صفیہ بنت حیی بھی تھیں جنھیں بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان کے ساتھ نکاح کر لیا۔ (بخاری، رقم ۵۹۸، ۹۷۶۲)

غزوئہ بنو المصطلق میں بھی آپ نے ان کے جنگی مردوں کو قتل کیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ ان میں قبیلے کے سردار کی بیٹی سیدہ جویریہ بھی شامل تھیں جو ابتداءثابت بن قیس کے حصے میں آئیں، لیکن پھر ان کی رضامندی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ثابت بن قیس سے خرید لیا اور انھیں آزاد کرکے ان سے نکاح کر لیا۔ (بخاری، رقم ۵۵۳۲، ۶۵۳۲۔ ابوداود، رقم ۹۲۴۲)

غزوئہ حنین میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا گیا اور انھیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنی ملکیت میں آنے والی خواتین کے استبراءرحم کے بعد ان سے استمتاع کر سکتے ہیں۔ تاہم بعد میں اس قبیلے کے لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور درخواست کی کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس کر دیا جائے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ان سب کو آزاد کر دیا گیا۔ (بخاری، رقم ۲۴۱۲، ۱۱۹۲۔ مسلم، رقم ۳۴۶۲)

بنو فزارہ کے خلاف غزوے میں ان کی جو خواتین قید کی گئیں، انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے مابین تقسیم کر دیا جبکہ ان میں سے بعض خواتین کو مکہ مکرمہ بھیج کر ان کے بدلے میں مسلمان قیدیوں کو رہا کرا لیا گیا۔ (مسلم، رقم ۹۹۲۳)

ایک موقع پر کچھ قیدی آپ کے پاس آئے تو ضباعہ بنت زبیر اور سیدہ فاطمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ ان قیدیوں میں سے ایک ایک خادم انھیں دے دیا جائے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’سبقکن یتامی بدر‘ یعنی بدر میں ییتم ہونے والوں کا حق تم سے مقدم ہے۔ (ابوداود، رقم ۴۰۴۴)

ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جنگی قیدیوں کو لایا جاتا تو آپ ان میں سے ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو اکٹھے کسی کی ملکیت میں دے دیتے تاکہ ان کے مابین تفریق نہ ہونے پائے۔ (ابن ماجہ، رقم ۹۳۲۲)

سیدنا علی کو ایک سریے میں یمن کی طرف بھیجا گیا تو بنو زید کے ساتھ لڑائی میں ان کے کچھ قیدی ان کے ہاتھ آئے۔ انھوں نے ان میں سے ایک عورت کو اپنے لیے چن لیا اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فیصلے کی تصویب فرما دی۔ (مسند احمد، رقم ۴۳۹۱۲)

عہد صحابہ میں اس ضمن کے بعض واقعات حسب ذیل ہیں:

عین التمر میں دشمن کے بہت سے افراد کو غلام بنا لیا گیا جن میں عبد الاعلیٰ شاعر کے والد ابو عمرہ، محمد بن سیرین کے والد سیرین اور سیدنا عثمان کے معروف غلام حمران بن ابان بھی شامل تھے۔ (ازدی، فتوح الشام، ص ۰۶)

سرزمین شام میں اردن کا علاقہ فتح ہوا تو اسلامی لشکر کے امرا میں اس حوالے سے اختلاف راے پیدا ہو گیا کہ مفتوحین کو غلام بنا کر مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے یا اہل ذمہ بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ معاملہ سیدنا عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے عملی مصلحت کی روشنی میں دوسری راے کی تائید کی لیکن اصولی طور پر غلام بنانے کی ممانعت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ (ازدی، فتوح الشام، ص ۵۲۱)

غامدی صاحب کی رائے میں اس نوعیت کے واقعات میں قیدیوں کو مختلف افراد کے مابین تقسیم کرنا مستقل ملکیت کے اصول پر نہیں بلکہ ایک عارضی انتظام کے طور پر تھا تاکہ یہ افراد خود ان قیدیوں کے ساتھ فدیہ وغیرہ کے معاملات طے کر کے بالآخر انھیں آزاد کر دیں، لیکن یہ توجیہ اشکال کو حل نہیں کرتی، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہرحال جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنایا اور اسی حیثیت سے لوگوں کو ان پر مالکانہ حقوق دیے ہیں، جبکہ اگر قرآن مجید نے سورئہ محمد کی زیر بحث آیت میں قیدیوں کو غلام بنانے کی ممانعت کی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں مملوک نہ بنایا جائے، چاہے یہ ملکیت وقتی اور عارضی نوعیت کی کیوں نہ ہو۔ پھر یہ کہ روایات میں اس کا بھی کوئی قرینہ موجود نہیں کہ یہ قیدی اس اصول پر تقسیم کیے گئے تھے کہ ان کے مالک ان کے ساتھ فدیے کا معاملہ طے کر کے انھیں آزاد کرنے کے پابند ہوں گے۔ بظاہر جس طریقے سے مختلف مواقع پر قیدیوں کو لوگوں کی ملکیت میںدیا گیا، اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ انھیں ان پر ملکیت کا حق مستقل طور پرحاصل ہو گیا تھا۔ ایسے کسی موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ بعد میں انھیں آزاد کرنا مالکوں پر لازم ہے۔ مزید برآں ایک ایسے معاملے کو جو نظم اجتماعی سے متعلق ہے، افراد کے سپرد کر دینے کی وجہ اور حکمت واضح نہیں ہوتی۔ اگر قرآن کا منشا یہی ہے کہ یہ قیدی لازماً آزاد ہو جائیں تو انھیں افراد میں تقسیم کر کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو ان کی شخصی صواب دید پر منحصر کر دینا بظاہر کوئی قابل فہم حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔

ان وجوہ سے میری طالب علمانہ رائے میں اہل علم کے عام نقطہ نظر کے مطابق یہی بات درست ہے کہ قرآن نے اسیران جنگ کو غلام بنانے پر قانونی اور شرعی دائرے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم

’’فقہائے احناف اور فہم حدیث۔اصولی مباحث’’ کا دیباچہ

فقہ حنفی کے ساتھ میرے شعوری تعارف کی ابتدا درس نظامی میں کتب حدیث کی تدریس کے ضمن میں زیر بحث آنے والے اختلافی مباحث سے ہوئی۔ احناف اور اہل حدیث کے مابین اختلافی مسائل پر مناظرہ ومجادلہ ارد گرد کے عمومی ماحول کا حصہ تھا اور یہ موضوعات بچپن سے ہی کانوں میں پڑتے رہتے تھے، لیکن بوجوہ مجھے ان بحثوں میں کوئی خاص دلچسپی پیدا نہیں ہو سکی۔ البتہ جب میں ۱۹۹۱ءمیں مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہوا تو ایک موقع پر مدرسہ میں طلبہ کی انجمن نے تقلید اور عدم تقلید کے موضوع پر ایک تربیتی مناظرہ کا اہتمام کیا جس میں، میں نے ترک تقلید کے نمائندے کے طور پر حصہ لیا۔ غالباً یہ وہ پہلا مرحلہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ ماحول کے زیر اثر ہم جن باتوں کو قبول کیے ہوئے ہیں، ان پر نظر ثانی کی کافی گنجائش موجود ہے۔ چنانچہ ایک تدریج کے ساتھ میرا رجحان احناف اور اہل حدیث کے معروف اختلافی مباحث میں اہل حدیث کی طرف بڑھتا چلا گیا اور یہ تاثر کافی پختہ ہو گیا کہ کم سے کم ان مباحث میں جو ہمارے ماحول میں بحث وجدال کا موضوع ہیں، احناف کا موقف دلائل کے اعتبار سے کمزور ہے۔
اس رجحان کے زیر اثر میں نے آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین وغیرہ مسائل میں اہل حدیث کے مسلک پر عمل شروع کردیا اور مختلف حضرات سے ان موضوعات پر بحث ومباحثہ بھی کرتا رہا۔ غالباً موقوف علیہ کے سال میں مشکوٰة المصابیح کے پرچے میں کسی سوال کے جواب میں، میںنے تقلید جامد کے خلاف اپنے تاثرات کا سخت الفاظ میں اظہار کیا جس پر استاذ گرامی مولانا عبد القدوس خان قارن کی تنبیہ سننی پڑی۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک استاذ نے میرے بعض رجحانات کی شکایت تحریری طور پر دادا محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ تک پہنچائی جنھوں نے ایک مختصر خط میں مجھے نصیحت کرنے کے علاوہ اپنی خدمت میں بھی طلب فرمایا۔ بہرحال صورت حال میں، اللہ کا شکر ہے کہ کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی اور میری باتوں کو ایک نوجوان کے عبوری اور وقتی ذہنی رجحانات سمجھ کر گوارا کیا جاتا رہا، بلکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی علیہ الرحمہ نے تو ایک موقع پر کمالِ دل نوازی سے یہ بھی فرما دیا کہ اگر تم تحقیق کی بنا پر بعض مسائل میں امام ابوحنیفہ کے بجائے دوسرے ائمہ کی رائے کو ترجیح دو تو ایسا کرنے سے تم حنفیت سے خارج نہیں ہو جاﺅ گے۔ اسی دَور میں دونوں بزرگوں، حضر ت مولانا سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہما اللہ نے باہمی مشورے سے مجھے مدرسہ نصرة العلوم میں درس نظامی کی تدریس کی ذمہ داری بھی سونپ دی جو ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۶ء تک جاری رہی۔
برادرم سید مشتاق علی شاہ کی تحریک پر ۱۹۹۵ میں (جو احناف اور اہل حدیث کے اختلافی مسائل سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور اُس وقت مدرسہ نصرة العلوم کے شعبہ نشر واشاعت کے ناظم تھے) میں نے امام ابوحنیفہ کی آرا پر مشہور محدث امام ابوبکر ابن ابی شیبہ کے اعتراضات کا علمی مطالعہ کیا جس کا نتیجہ میری اولین تصنیف ”امام اعظم ابو حنیفہ اور عمل بالحدیث“ کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کی ابتدا مشتاق شاہ صاحب کی اس تجویز سے ہوئی تھی کہ چونکہ ابن ابی شیبہ کے اعتراضات کا مکمل جائزہ اردو زبان میں موجود نہیں، اس لیے میں الدکتور محمد قاسم عبدہ الحارثی کے تحقیقی مقالہ ”مکانة الامام ابی حنیفة بین المحدثین“ کے اس باب کا اردو میں ترجمہ کر دوں جس میں انھوں نے ابن ابی شیبہ کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا اختصار کے ساتھ جواب دیا ہے۔
میں نے ترجمہ شروع کیا تو محسوس ہوا کہ جوابات ایسے مختصر اسلوب میں دیے گئے ہیں کہ ان سے اہل علم ہی مستفید ہو سکتے ہیں، جبکہ عام قارئین پر بات پوری طرح واضح نہیں ہو پائے گی۔ چنانچہ خیال ہوا کہ براہ راست مطالعے کی روشنی میں ہر مسئلے سے متعلق احناف کا موقف اور اس کا بنیادی استدلال عام فہم اسلوب میں اردو میں پیش کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے لمبی چوڑی تحقیق اور اصل مآخذ کی مراجعت کا اہتمام کیے بغیر زیادہ تر مولانا ظفر احمد عثمانی کی ’اعلاءالسنن‘ اور اختلافی مباحث پر بعض اساتذہ کی درسی تقاریر (مثلاً شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدر کی ’خزائن السنن‘ اور مولانا محمد تقی عثمانی کی ’درس ترمذی‘ وغیرہ) کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کتاب کی تصنیف شروع کر دی اور کوئی نو دس ماہ کے عرصے میں کتاب کا مسودہ تیار ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر مجھے علامہ کوثری کی مشہور تصنیف ’النکت الطریفة‘ دستیاب نہیں ہو سکی اور میری کتاب کے شائع ہونے کے کئی سال بعد یہ کتاب دیکھنے کو ملی۔
مسودہ کی تسوید کے دوران میں ہی مشتاق شاہ صاحب نے حضرت صوفی صاحبؒ سے اس کا ذکر کر دیا تھا جس پر وہ بے حد خوش ہوئے اور کتاب کو مدرسہ کے شعبہ نشر واشاعت کے زیر اہتمام شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کتاب کے نام سے متعلق حضرت صوفی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا تو پہلا نام ”امام ابوحنیفہ اور مخالفت حدیث“ ذہن میں آیا، لیکن صوفی صاحب نے اسے پسند نہیں کیا۔ اس کے بعد میں نے ”امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث“ کا عنوان تجویز کیا تو انھوں نے فوراً اس کی تائید فرمائی اور یہی عنوان طے پا گیا۔ کتاب چھپ کر آئی تو دادا محترم حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے نہایت شفقت سے اس کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا اور پوری کتاب میں کتابت اور املا کی اغلاط کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر راہ نمائی کے لیے مختصر تبصرے بھی درج کیے اور یہ نسخہ میرے ریکارڈ کے لیے مجھے عنایت کر دیا۔
مذکورہ کتاب کی تصنیف کے بعد اگرچہ جملہ مسائل میں احناف کے استدلال پر پورا اطمینان تو حاصل نہ ہو سکا، تاہم حنفی فقہا کے اجتہادات کے احادیث کے خلاف ہونے کا تاثر زائل ہو گیا اور علمی طور پر یہ بات بہت واضح ہو گئی کہ احادیث سے استدلال واستنباط کے ضمن میں احناف کا منہج مضبوط بنیادوں پر استوار ہے جس سے فقہ واجتہاد کے دائرے میں اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، لیکن اس پر حدیث کی مخالفت کا الزام کسی صورت نہیں دَھرا جا سکتا۔ اس ضمن میں یہ احساس بھی ہوا کہ احناف کے ہاں احادیث کے رد وقبول اور تعبیر وتشریح کے ضمن میں جن راہ نما اصولوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، انھیں مستقل طور پر واضح کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ مخصوص اجتہادی نتائج جن فقہی اصولوں کی پیروی سے پھوٹتے ہیں، ان کو سمجھے بغیر فروعی واطلاقی مسائل میں کسی بھی فقہی مکتب فکر کے نقطہ نظر اور استدلال کو کماحقہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
میرے ذہن میں اس حوالے سے حنفی منہج فکر کے جو بنیادی پہلو واضح ہوئے، میں نے ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۲ء میں انھیں اپنے بعض مضامین کی صورت میں مرتب کیا جو ماہنامہ ”الشریعہ“، ماہنامہ ”نصرة العلوم“ اور ماہنامہ ”اشراق“ میں شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک مضمون جو ”علم حدیث میں درایتی نقد کا تصور“ کے عنوان سے کسی قدر کمی بیشی کے ساتھ مذکورہ تینوں مجلات میں شائع ہوا، اس میں اکابر صحابہ، جلیل القدر محدثین اور فقہائے حنفیہ ومالکیہ کی آرا کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ صحت سند، روایت کی تحقیق کا حتمی معیار نہیں، بلکہ سنداً صحیح ہونے کے بعد بھی روایت کے متن کو مختلف علمی وعقلی اصولوں کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کے اہل حدیث حضرات کے نزدیک چونکہ محدثین کے نتائج تحقیق بھی حدیث ہی کا درجہ رکھتے ہیں اور محدثین کی صحیح قرار دادہ کسی حدیث پر درایتاً کوئی سوال اٹھانا انکار حدیث کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے، اس لیے مذکورہ تحریر اہل حدیث احباب کے لیے بطور خاص پریشانی کا باعث بنی۔ چنانچہ بعض اہل حدیث جرائد میں شائع ہونے والی تنقیدوں کے علاوہ ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی نے میرے اس مضمون میں بیان کردہ نقطہ نظر اور پیش کردہ مثالوں کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی بنیاد بنایا اور متعلقہ مباحث کے حوالے سے اہل حدیث کا نقطہ نظر واضح کر کے جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
مذکورہ مضامین کے علاوہ احادیث وآثار کے حوالے سے ائمہ احناف کے زاویہ نظر اور اصولی موقف کی وضاحت میں میری بعض تفصیلی تحریریں حال ہی میں بھارت کے معروف علمی جریدہ ”معارف“ میں شائع ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے اور مزید کئی پہلو دادِ تحقیق کے متقاضی ہیں، تاہم میں نے محسوس کیا کہ پچھلے پندرہ سال میں مجھے جن بنیادی پہلووں پر متفرق تحریریں لکھنے کا موقع ملا ہے، انھیں یکجا مرتب کر دینا افادیت سے خالی نہیں ہوگا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان تمام تحریروں کو جمع کر کے ان پر نظر ثانی کی ہے اور مباحث کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ وہ ایک مربوط کتاب کا حصہ بن سکیں۔ نظر ثانی اور ترتیب نو کے عمل میں قدرتی طور پر بہت سے نئے مباحث اور مثالوں کا اضافہ بھی ہوتا چلا گیا ہے اور یوں اس ساری سعی وکاوش نے وہ شکل اختیار کر لی ہے جو زیر نظر کتاب کی صورت میں قارئین کے سامنے ہے۔ اس کام کی تکمیل میں میرے ذاتی داعیے کے علاوہ برادرم محمد فہد کی تحریک کا بھی کافی حصہ ہے جنھوںنے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن اپنے ادارے ”کتاب محل“ سے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر ان کی مسلسل یاد دہانی اس کی تکمیل کے لیے مہمیز کا کام کرتی رہی۔
کئی سال قبل میں نے ”امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث“ کی نئی اشاعت کی غرض سے اس پر نظر ثانی شروع کی تو محسوس ہوا کہ معاملہ نظر ثانی سے آگے بڑھ کر ایک مستقل اور نئی تصنیف کا متقاضی ہے، چنانچہ میں نے براہ راست اصل مآخذ کی روشنی میں وسیع تر مطالعہ اور تحقیق کے اہتمام کے ساتھ ابن ابی شیبہ کے اعتراضات اور ان کے جواب میں حنفی فقہا کے موقف اور استدلال کا جائزہ لینا شروع کیا اور درمیان میں طویل وقفے آنے کے باوجود یہ نئی تصنیف بھی کم وبیش ستر فی صد مکمل ہو چکی ہے۔ میںنے اس کا نام ”فقہائے احناف اور فہم حدیث“ تجویز کیا ہے اور اللہ کو منظور ہوا تو تکمیل کے بعد یہ جلد قارئین کے سامنے آجائے گی۔ زیر نظر تصنیف چونکہ مذکورہ کتاب کے مباحث کے لیے ایک تمہیدی مطالعے کا کام دے گی، اس وجہ سے میں نے اس کے لیے ”فقہائے احناف اور فہم حدیث- اصولی مباحث“ کا عنوان منتخب کیا ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کتاب کے مندرجات میں سے مفید اور کار آمد باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا کر دے اور سقیم چیزوں کے ضرر سے مصنف اور قارئین دونوں کو محفوظ رکھے۔ اللھم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ینفعنا وزدنا علما۔ آمین

جمہوریت، جہاد اور غلبہ اسلام

جمہوریت، جہاد اور غلبہ اسلام

(ایک علمی وفکری مذاکرہ کی روداد)

اسلام آباد میں قائم، ملک کے معروف تحقیقی ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) نے حالیہ چند مہینوں میں اسلام، جمہوریت او رآئین پاکستان کے موضوع پر لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں متعدد علمی وفکری مذاکروں کا اہتمام کیا اور ملک بھر سے مختلف حلقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے اہل فکر ودانش کو موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کے لیے جمع کیا۔ ان نشستوں کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ نائن الیون جیسے واقعات کے تناظر میں جدید جمہوری اصولوں پر قائم نظم حکومت کو خلاف شریعت قرار دے کر ریاستی نظام کو بزور قوت تبدیل کرنے کی جو سوچ پیدا ہوئی ہے، اس کے فکری مقدمات اور اہم اعتراضات کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ نفاذ اسلام کے لیے جمہوری اصولوں کے تحت پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے مذہبی طبقات اس ساری صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ منتظمین کی طرف سے اس کی بھی کوشش کی گئی کہ ان مذاکروں میں مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے عناصر کی بھی نمائندگی ہو اور دونوں نقطہ ہائے نظر کو باہمی مکالمہ کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے، تاہم اس میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی اور منعقدہ مذاکروں میں زیادہ تر مین اسٹریم کے نمائندہ مذہبی اسکالرز نے ہی حصہ لیا۔ کچھ عرصہ قبل مذکورہ ادارے نے جدید مسلم ریاستوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے موضوع پر بھی اسی نوعیت کے مذاکروں کی ایک سیریز منعقد کی تھی جس میں بڑی وقیع اور اہم بحثیں سامنے آئیں، تاہم اس موقع پر بھی عمومی صورت حال یہی رہی اور جمہوری نظم ریاست سے اختلاف رکھنے والے عناصر کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی۔

بہرحال اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان کے موضوع پر حالیہ سلسلہ مجالس کی آخری نشست ۲۲ ستمبر ۲۰۱۴ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر قبلہ ایاز، خورشید احمد ندیم، صاحبزادہ امانت رسول، مولانا احمد بنوری، مولانا اعجاز احمد صمدانی، مولانا محمد شفیع چترالی، ڈاکٹر رشید احمد، مولانا یاسین ظفر، جناب ثاقب اکبر، مولانا عبد الحق ہاشمی اور راقم الحروف نے شرکت کی۔ منتظمین کی طرف سے راقم کو ان تمام مذاکروں کی روشنی میں ابھر کر سامنے آنے والے متفقہ نکات مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور آخری اجلاس میں راقم کے مرتب کردہ درج ذیل نکات کو ’’متفقہ سفارشات‘‘ کی حیثیت سے منظور کیا گیا:

’’۱۔ اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ مسلمان ریاست میں کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ البتہ اجتہادی امور میں اجتماعی بصیرت اور غور وفکر سے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مجلس قانون ساز کا تصور بنیادی طور پر اسلام کے خلاف نہیں ہے۔

۲۔ اسلام کا سیاسی نظام شورائیت کے اصول پر مبنی ہے۔ مطلق العنان بادشاہی اور آمریت کا طرز حکومت اسلامی تصورات کے خلاف ہے۔

۳۔ حکمرانوں کو رائے عامہ کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ تاہم حکمران کے انتخاب کا کوئی لگا بندھا ضابطہ شریعت میں نہیں بتایا گیا۔ خلفائے راشدین کا انتخاب الگ الگ طریقوں سے کیا گیا۔ اس لیے بدلتے ہوئے حالات میں اس مقصد کے لیے کوئی بھی موزوں طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔

۴۔ اسلام کی رو سے امیدوار کا انتخاب ایمان، عمل صالح، اہلیت وصلاحیت اور دیانت وامانت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جیساکہ آئین پاکستان کی شق ۶۲ و ۶۳ میں بھی اس کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان میں نظام انتخابات کی اصلاح کے ضمن میں اقدامات وتجاویز کو قومی سطح پر موضوع بحث بنایا جائے اور مروجہ طریق کار کے ساتھ دیگر متبادل طریقہ ہائے کار مثلا متناسب نمائندگی وغیرہ کو بھی زیر غور لایا جائے۔

۵۔ ریاستی سطح پر طے ہونے والے اجتماعی معاملات میں اختلافات ونزاعات کے تصفیے کے لیے اکثریت کی رائے کو بنیاد بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اقلیت کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے تصورات اکثریت پر مسلط کرے۔ یہی اصول شریعت کی تعبیر وتشریح کے باب میں بھی لاگو ہوگا اور اس کا فیصلہ منتخب پارلیمان کی سطح پر ہوگا۔
۶۔ اسلام اگرچہ مختلف سیاسی گروہوں کے وجود کی نفی نہیں کرتا، لیکن وہ اس پر اصرار کرتا ہے کہ حکمرانوں پر تنقید یا ان سے اختلاف کا مقصد نظام حکومت کی بہتری، انسانی حقوق کا تحفظ اور رفلاح عامہ ہونی چاہیے۔ اسلام دھڑے بندی اور اختلاف برائے اختلاف کے بجائے باہمی تعاون اور خیر خواہانہ محاسبہ وتنقید کو حکمرانوں اور رعایا کے باہمی تعلقات کی بنیاد تصور کرتا ہے۔

۷۔ پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے جو علماء کی تائید سر مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں قرارداد مقاصد دیباچے کے طور پر موجود ہے ، قوانین کو قرآن وسنت کے تابع رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے اور خلاف شریعت قوانین کی تبدیلی کے لیے پورا طریق کار وضع کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت قومی اتفاق کی ہے جسے تمام نمائندہ طبقات کا اعتماد حاصل ہے۔

۸۔ آئین میں دی گئی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ملک کے عملی نظام سے متعدد غیر اسلامی امور کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ اس پہلو پر خاص توجہ دینی چاہیے، کیونکہ یہ آئین میں کیے گئے عہد کا بھی تقاضا ہے اور حکومتوں کی طرف سے عملی کوتاہی اور تساہل کی وجہ سے فی نفسہ آئین اور دستور کے متعلق بھی منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔

۹۔ ملکی قوانین کی شریعت کی روشنی میں اصلاح کے لیے آئین ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو غور وخوض اور بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دستوری طور پر کونسل کی سفارشات کا پارلیمان کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہو۔

۱۰۔ دستور پاکستان کی حیثیت ایک قومی معاہدے کی ہے جس کی پاس داری اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام فریقوں پر ضروری ہے۔ البتہ دستور کی ہیئت میں کسی تبدیلی یا متبادل تجاویز کے حوالے سے بحث ومباحثہ کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ نہ تو دستور کی کسی شق سے نظری اختلاف کو غداری قرار دینا چاہیے اور نہ عملی طور پر دستور سے ہٹ کر بزور قوت ملکی نظام میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

۱۱۔ بعض طبقات کی طرف سے اسلامی اقدار کے منافی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے رد عمل پیدا ہوتا ہے جو بسا اوقات تشدد پر منتج ہوتا ہے۔ اس رجحان کے سد باب کے لیے غیر اسلامی تصورات اور سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور مثبت اقدار کے فروغ کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۱۲۔ مسلمان معاشروں میں جمہوریت کا وہی تصور قابل قبول ہو سکتا ہے جو اسلامی نظام اقدار اور ضابطہ حیات سے ہم آہنگ ہو۔ مغربی قوتوں کو چاہیے کہ وہ مسلمان معاشروں کی مذہبی وثقافتی حساسیتوں اور ترجیحات کو پیش نظر رکھیں اور معاشرت کی تشکیل یا انتقال اقتدار کے حوالے سے مسلم رائے عامہ کے اکثریتی وجمہوری فیصلوں کا احترام کریں۔

۱۳۔ ایک نظریاتی اسلامی ریاست اور ایک قومی ریاست کی ترجیحات میں فرق کے حوالے سے پاکستان کے مختلف طبقات میں فکری ابہامات پائے جاتے ہیں جنھیں فکری سطح پر موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں علمی وتحقیقی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۱۴۔ نفاذ اسلام کے لیے غیر جمہوری اور عسکری جدوجہد پر یقین رکھنے والے طبقات کے ساتھ اسلام اور جمہوریت نیز جہاد اور غلبہ دین جیسے اساسی تصورات کے حوالے سے براہ راست مکالمے کا اہتمام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں موجود غلط فہمیوں اور ابہامات کا ازالہ کیا جا سکے۔‘‘

مذکورہ سفارشات کا آخری نکتہ خاص طور پر راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں اٹھایا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ جو ذہن ’’جہاد‘‘ کے تصور کے زیر اثر پاکستان کے ریاستی نظام کے خلاف برسرپیکار ہے، اس کے ساتھ مکالمے کے لیے بنیادی سوالات وہ نہیں ہیں جن کا مذکورہ سفارشات میں جواب دیا گیا ہے۔ اس ذہن کے فکری مقدمات اور اس طرز جدوجہد کے محرکات کو درست طور پر سمجھنے اور اس کے ساتھ مکالمہ کرنے کے لیے محدود سطح کی آئینی وقانونی یا فقہی بحثیں غیر موثر اور غیر متعلق ہیں۔ اس کے لیے اعلیٰ فلسفیانہ اور فکری سطح پر تاریخ وتہذیب سے متعلق چند اساسی سوالات کو موضوع بحث بنانا ہوگا اور ایسی بحثیں اٹھانا ہوں گی جو مذہبی ذہن کو تاریخ انسانی میں اسلام کے کردار اور غلبہ دین جیسے تصورات پر نئے پہلوؤں سے غور کرنے میں مدد دیں۔ راقم نے اس ضمن میں غور وفکر اور مکالمہ کے لیے جن سوالات ومباحث کی طرف توجہ دلائی، وہ حسب ذیل ہیں:

’’۱۔ دنیا میں تہذیبی وسیاسی غلبے سے متعلق سنت الٰہی کیا ہے؟ کیا یہ معاملہ سرتا سر انسانی تدبیر سے متعلق ہے یا اس میں تکوینی فیصلے کارفرما ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں تکوینی مشیت الٰہی اور انسانی تدبیر میں سے اصل اور اساس کی حیثیت کس کو حاصل ہے؟

۲۔ سنت الٰہی کی رو سے کسی قوم کو دنیا میں غلبہ واقتدار حق وباطل کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے یا اس کی بنیاد کسی دوسرے اصول پر ہے؟ پوری انسانی تاریخ میں جن جن قوموں اور تہذیبوں کو دنیا میں عالمی اقتدار حاصل رہا ہے، کیا وہ سب کی سب حق کی پیروکار تھیں؟ نیز ان قوموں کو یہ سیادت واقتدار کسی تکوینی سنت الٰہی کے تحت ملا تھا یا وہ مشیت الٰہی کے علی الرغم اس پر قابض ہو گئی تھیں؟

۳۔ کسی قوم کو سنت الٰہی کے تحت غلبہ واقتدار دیا جائے اور پھر وہ رو بہ زوال ہو جائے تو قانون الٰہی کے تحت اس کی بنیادی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کے اسباب اصلاً داخلی ہوتے ہیں یا خارجی؟ کیا کوئی مخالف گروہ محض اپنی سازشوں کے ذریعے سے کسی سربلند قوم کو زوال سے ہم کنار کر سکتا ہے؟ (اس ضمن میں ذالک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسہم کے اصول پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔)

۴۔ اگر کسی قوم کی، منصب سیادت سے معزولی کا فیصلہ اخلاقی اصولوں کے تحت تکوینی سطح پر ہوتا ہے تو کیا اس کو محض انسانی تدبیر سے بدلا جا سکتا ہے؟

۵۔ اگر کوئی قوم صدیوں کے عمل کے نتیجے میں زوال کا شکار ہوئی ہے تو کیا اس صورت حال کو سالوں کی جدوجہد سے بدلا جا سکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انسانی تاریخ کی سطح پر رونما ہونے والے کسی ہمہ گیر اور جوہری تغیر کو محدود وقتی نوعیت کی حکمت عملی (short term strategy) کے ذریعے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

۶۔ اگر حق کی حامل کوئی قوم سنت الٰہی کے مطابق غلبہ وسیادت کے لیے مطلوبہ اوصاف سے محرومی کے بعد زوال سے ہم کنار کر دی جائے تو کیا محض ’جہاد‘ شروع کر دینے سے اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں ’جہاد‘ غلبہ وسیادت کی ایک مکمل اسکیم کا جزو اور حصہ ہے یا محض یہ ایک نکاتی ایجنڈا ہی مطلوبہ نتیجے تک پہنچا دینے کا ضامن ہے؟

۷۔ کیا کسی قوم کو اس کے تہذیبی وسیاسی غلبے کے دورِ عروج میں طاقت کے زور پر شکست دی جا سکتی ہے؟ اس ضمن میں انسانی تاریخ کے مسلسل واقعات ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟

۸۔ مسلح تصادم کو بطور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نفع ونقصان کے تناسب اور طاقت کے توازن کے سوال کی اہمیت کتنی ہے؟ اس حوالے سے قرآن وسنت اور فقہ اسلامی ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟

۹۔ روحانی سطح پر امت میں ایمان، یقین، اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کے اوصاف اجتماعی سطح پر پیدا کیے بغیر کیا محض عسکری جدوجہد سے مغرب کے غلبہ کو امت مسلمہ کے غلبے سے تبدیل کر دینا ممکن ہے؟

۱۰۔ امت مسلمہ میں داخلی سطح پر مذہبی، سیاسی اور نسلی تفریقات کی موجودگی میں اور ٹھوس سیاسی وعمرانی بنیادوں پر ان کا کوئی حل نکالے بغیر کیا بطور امت، مسلمانوں میں وہ وحدت پیدا ہو سکتی ہے جو بطور ایک تہذیب کے، مغرب کی سیادت کو چیلنج کرنے کے لیے درکار ہے؟

۱۱۔ کیا دنیا پر مغرب کا استیلا محض عسکری اور سیاسی واقتصادی ہے یا اس کے پیچھے فکر وفلسفہ کی قوت بھی کارفرما ہے؟ حیات وکائنات اور انسانی معاشرت سے متعلق مغرب نے مذہب کی نفی پر مبنی جو افکار ونظریات پیش کیے اور متنوع انسانی علوم وفنون کی مدد سے انھیں ایک طاقتور متبادل فلسفہ حیات کے طور پر منوا لیا ہے، ان کا سحر توڑے بغیر کیا محض عسکری میدان میں نبرد آزمائی سے مغرب کے استیلا کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟

۱۲۔ اگر حق کا حامل گروہ مخصوص حالات میں مغلوب ہو جائے تو انسانی تاریخ کی روشنی میں، کیا حق کے، باطل پر غالب آنے کی یہی ایک صورت ممکن ہے کہ مغلوب گروہ کو دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے یا اس سے مختلف صورتیں بھی ممکن ہیں؟ مثلاً یہ کہ باطل کا پیروکار گروہ طاقت کے میدان میں غالب رہتے ہوئے دعوتِ حق سے مغلوب ہو کر اس کی پیروی اختیار کر لے؟ (جیسے مسیحیت کی تاریخ میں رومۃ الکبریٰ کے مسیحی مذہب کو اختیار کر لینے سے اور اسلامی تاریخ میں تاتاریوں کے حلقہ بگوش اسلام ہو جانے کی صورت میں ہوا)

۱۳۔ دنیا میں اسلام کو دوبارہ غلبہ حاصل ہونے کے ضمن میں ظہور مہدی اور نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق جن پیشین گوئیوں کی بنیاد پر ایک تصور مستقبل قائم کیا جاتا ہے، کیا وہ علمی وشرعی طور پر کسی حکمت عملی کا ماخذ بن سکتی ہیں؟ یعنی کیا اس چیز کو حکمت عملی کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کرنے کی سعی کی جائے جس میں مذکورہ شخصیات کا ظہور ہونا ہے؟ ان شخصیات کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے دجال کے ظہور کی بات بھی روایات میں بیان ہوئی ہے جس سے تمام انبیاء پناہ مانگتے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ظہور دجال کے لیے حالات کو ہموار کرنے کی شعوری کوششوں کی دین وشریعت کے نقطہ نظر سے کیا حیثیت ہوگی؟

۱۴۔ مذکورہ واقعات سے متعلق روایات کیا اتنی واضح، مربوط اور مفصل ومنضبط ہیں کہ ان سے کسی مخصوص تاریخی دور کے ظہور اور واقعات کی ترتیب کا ایک واضح نقشہ اخذ کیا جا سکے ؟ کیا تمام متعلقہ روایات علم حدیث کی رو سے اس درجے کی ہیں اور ان میں بیان ہونے والے تمام تر اجزا اور ان کی زمانی وواقعاتی ترتیب اتنی قطعی اور واضح ہے کہ ان پر باقاعدہ ایک حکمت عملی کی بنیاد رکھی جا سکے؟

۱۵۔ کسی بھی صورت حال میں دینی جدوجہد کی ذمہ داری کی نوعیت اور اہداف طے شدہ ہیں یا اضافی؟ یعنی کیا اہل ایمان ہر طرح کی صورت حال میں پابند ہیں کہ ایک ہی طرح کے اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد کو اپنی ذمہ داری تصور کریں یا یہ کہ اس کا تعلق حالات وظروف سے ہے؟ اس ضمن میں انبیائے سابقین میں سے، مثال کے طور پر، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام نے جو طریقہ اختیار فرمایا، وہ اسی طرح کے حالات میں امت محمدیہ کے لیے بھی قابل استفادہ ہے یانہیں؟ نیز کسی بھی صورت حال میں کسی ہدف کے حصول کے لیے جدوجہد کے لیے حکمت عملی کا مسئلہ منصوص، متعین او ربے لچک ہے یا اجتہادی؟

۱۶۔ کسی بھی صورت حال میں بحیثیت مجموعی پوری امت کے لیے یا کسی مخصوص خطے میں اس علاقے کے مسلمانوں کے لیے حکمت عملی متعین کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟ کیا یہ اہل ایمان کا اجتماعی حق ہے یا اس میں کسی مخصوص گروہ کو باقی امت کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اختیار حاصل ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا کسی گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے تئیں کسی ایسی حکمت عملی کا تعین کر کے اس پر عمل شروع کر دے جس کے نتائج عمومی طور پر مسلمانوں کو بھگتنا پڑیں، حالانکہ اقدام کرنے والے گروہ کو عمومی طور پر مسلمانوں کا اعتماد یا ان کی طرف سے امت کے اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا گیا ہو؟‘‘

راقم نے یہ تجویز دی کہ مذکورہ سوالات پر غور وفکر اور مباحثہ کے لیے ایک مستقل سلسلہ مجالس کا انعقاد کیا جائے اور اس میں ہر دو نقطہ ہائے نظر کے حامل اہل علم ودانش کو باہمی مکالمہ کا موقع فراہم کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ قومی سطح کے علمی وفکری ادارے اور ان کے علاوہ ہماری جامعات ان سوالات کو غور وفکر اور تحقیق کا موضوع بنانے کی ضرورت کا ادراک کریں گی، اس لیے کہ ان سوالات سے متعلق اپنے تصورات کو واضح اور یکسو کیے بغیر امت مسلمہ کے لیے دور جدید میں عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنا تو درکنار، اپنے لیے کوئی اجتماعی سمت اور رخ متعین کرنا بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

آزادانہ بحث ومباحثہ کی پالیسی اور حضرت شیخ الحدیثؒ

 

محمد عمار خان ناصر

آزادانہ بحث ومباحثہ کی پالیسی اور حضرت شیخ الحدیثؒ 

آزادانہ علمی بحث ومباحثہ کے حوالے سے ’’الشریعہ‘‘ کا منہج اور طرز فکر ان دنوں ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر ’’الشریعہ‘‘ میں وقتاً فوقتاً بات ہوتی رہتی ہے، تاہم حالیہ تنقید میں نسبتاً ایک نیا نکتہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ یہ کہ مولانا زاہد الراشدی نے: ۱۔ دیوبندی مسلک کے علاوہ دوسرے مکاتب فکر کے اہل علم اور ان کی آرا کے حوالے وسعت نظری کا رویہ اپنانے، ۲۔ ’الشریعہ‘ میں دیوبندی اکابر کی آرا اور تحقیقات کے خلاف تحریریں شائع کرنے اور اسے آزادانہ مباحثہ ومکالمہ کا فورم بنانے، اور ۳۔ راقم الحروف کی سرپرستی کرنے اور میری انفرادی آرا کو ’’علمی اختلاف‘‘ قرار دے کر حوصلہ افزائی کرنے کی روش حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی وفات کے بعد اختیار کی ہے اور مذکورہ طرز فکر اپنانے کی وجہ سے وہ گویا اپنے والد محترم کے فکر ومنہج سے منحرف ہو چکے ہیں۔

اس تاثر کی تردید کے لیے اول تو ’الشریعہ‘ سے متعلق اس تنقیدی تبصرے کا حوالہ دینا کافی ہے جو حضرت شیخ الحدیث کی حین حیات میں ان کی وفات سے ایک ماہ قبل ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ ملتان کے ربیع الاول ۱۴۳۰ھ کے شمارے میں شائع ہوا۔ تبصرہ نگار نے اس مضمون میں ’الشریعہ‘ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’آج جب کہ ہم یہ تبصرہ لکھ رہے ہیں، الشریعہ کی اشاعت کو تقریباً بیس سال مکمل ہونے کو ہیں۔ الشریعہ کی فائلیں دیکھ کر ہمیں انتہائی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب اس پلیٹ فارم پر اپنے اکابر کی راہِ مستقیم سے الگ ہو رہے ہیں ۔۔۔ الشریعہ کے مدیر حافظ عمار خان ناصر، جاوید احمد غامدی کے شاگرد وخوشہ چین ہیں اور وہ آزاد خیالی میں انھی کے طرز فکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی تالیفی کاوشیں اور الشریعہ کی فائلیں ہماری اس بات کی شاہد ہیں اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا اجرا بھی اسی طرز فکر کو پروان چڑھانے کے لیے کیا گیا۔‘‘

تبصرے سے واضح ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ کی جس روش پر اعتراض کیا گیا ہے، وہ حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد کی کوئی ’’بدعت‘‘ نہیں، بلکہ الشریعہ کی پچھلی ساری فائلیں اس کی شاہد ہیں۔ اگرچہ اس کے بعد اس تاثر کے بے بنیاد ہونے کے لیے کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں، تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ الحدیثؒ کی زندگی میں مذکورہ تینوں نکات کے حوالے سے ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہونے والی اہم اور نمائندہ تحریروں پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ یہ بات پوری طرح مبرہن ہو جائے کہ علمی وفکری مسائل میں والد گرامی کا طرز فکر اور آزادانہ بحث ومباحثہ کے ضمن میں ’’الشریعہ‘‘ کا منہج حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد کا واقعہ ہرگز نہیں۔ ان تمام امور سے متعلق والد گرامی کا موقف اور نقطہ نظر بڑے واضح انداز میں اور ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر مسلسل شائع ہوتا رہا اور خاص طور پر حضرت کی زندگی کے آخری نو سال میں آزادانہ بحث ومباحثہ کو فروغ دینے اور حساس اور نازک موضوعات کو زیر بحث لانے کے حوالے سے ’’الشریعہ‘‘ نے علمی حلقوں میں خاص شہرت حاصل کر لی تھی۔ 

الشریعہ کے صفحات پر مختلف موضوعات پر تسلسل کے ساتھ بحث ومباحثہ کی روایت کا آغاز ۲۰۰۱ء میں والد گرامی اور جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے مابین چند اہم امور پر تبادلہ مضامین سے ہوا۔ والد گرامی نے جناب جاوید احمد غامدی کی بعض آرا پر تنقید لکھی جو روزنامہ اوصاف میں شائع ہوئی۔ اس کے جواب میں غامدی صاحب کے حلقہ فکر کی طرف سے برادرم معز امجد، برادرم خورشید احمد ندیم اور ڈاکٹر محمد فاروق خان مرحوم نے بحث میں حصہ لیا۔ یہ سلسلہ بحث پہلے روزنامہ اوصاف اور روزنامہ پاکستان میں شائع ہوتا رہا اور پھر اس کے زیادہ تر اجزا ’الشریعہ‘ کے مئی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں یکجا شائع کر دیے گئے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ نے یہ ساری بحث توجہ سے دیکھی تھی، چنانچہ اس کے بعد ایک موقع پر راقم نے ان سے یہ دریافت کیا کہ اس علمی مکالمے میں ریاست کے بغیر جہاد کا جو نکتہ زیر بحث آیا ہے، اس سے متعلق آپ کا موقف کیا ہے۔ میرا گمان یہ تھا کہ اس مسئلے میں وہ شاید غامدی صاحب کے موقف کی تصویب کریں گے، لیکن انھوں نے فرمایا کہ ’’جو زاہد نے لکھا ہے، وہ ٹھیک ہے۔‘‘

’’الشریعہ‘‘ کے مذکورہ شمارے میں والد گرامی کی تنقید یک طرفہ طور پر شائع نہیں کی گئی تھی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معز امجد، خورشید احمد ندیم اور ڈاکٹر محمد فاروق خان کے تفصیلی مضامین بھی شامل کیے گئے تھے۔ یہ مباحثہ جس متانت کے ساتھ اور جس علمی انداز میں کیا گیا، اس کی تحسین نہ صرف سنجیدہ قارئین کے ایک وسیع حلقے نے کی بلکہ غامدی صاحب کے حلقہ فکر کے اہل قلم نے بھی اس اسلوب کو سراہا اور اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ اسی بحث کے دوران میں والد گرامی نے اہل علم کے تفردات کے حوالے سے اپنا وہ اصولی موقف بیان کیا تھا جسے آج حضرت شیخ الحدیث کے منہج فکر سے انحراف قرار دیا جا رہا ہے۔ والد گرامی نے لکھا تھا کہ:

’’تفردات‘‘ کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ ہر صاحبِ علم کا حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے بشرطیکہ وہ ان کی ذات یا حلقے تک محدود رہے۔ البتہ اگر کسی ’’تفرد‘‘ کو جمہور اہلِ علم کی رائے کے علی الرغم سوسائٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فکری انتشار اور ایک نئے مکتب فکر کے قیام کا سبب بنتا ہے۔‘‘ (الشریعہ، مئی ۲۰۰۱ء، ص ۸)

والد گرامی کی یہ تحریر ’’الشریعہ‘‘ کے مذکورہ شمارے میں شائع ہوئی تھی اور حضرت شیخ الحدیث نے اسے ملاحظہ فرمانے کے باوجود اس حوالے سے والد گرامی پر کوئی گرفت نہیں فرمائی تھی۔ 

بعض معاصر ناقدین والد گرامی پر تنقید کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی پیش کر رہے ہیں کہ انھوں نے مولانا معین الدین خٹکؒ کے درسی افادات کے مجموعہ ’’معین القاری‘‘ کے دیباچے میں مولانا مودودی کے نظریات کو ’’تفردات‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ والد گرامی نے بعینہ یہی بات غامدی صاحب کے ساتھ مذکورہ مکالمے کے دوران میں ایک مضمون میں ۲۰۰۱ء میں بھی تحریر کی تھی جسے حضرت شیخ الحدیثؒ نے براہ راست پڑھا، لیکن اس میں ’’گمراہی‘‘ کی کوئی بو محسوس نہیں کی۔ والد گرامی نے لکھا:

’’کچھ عرصہ ہوا، ایک صاحب علم دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ علمی تفردات میں مولانا ابوالکلام آزاد،اور مولانا عبیداللہ سندھی ؒ بھی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے پیچھے نہیں ہیں تو اس کی وجہ کیاہے کہ ان کے تفردا ت علما کے حلقہ میں اس شدت کے ساتھ موضوع بحث نہیں بنے جس شدت کے ساتھ مولانا مودودی ؒ کے افکار کونشانہ بنایاگیا ہے؟میں نے عرض کیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا سندھیؒ اور ابو الکلام آزادؒ کے علمی تفرادت پر ان کے شاگردوں اورمعتقدین نے دفاع اورہر حال میں انہیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی جو خود مولانا مودودیؒ اور ان کے رفقا نے ان کے تحریروں پر علما کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات پر اپنا لی تھی ۔چنانچہ اس روش کے نتیجے میں وہ جمہور علما کے مد مقابل ایک فریق کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے اور بحث ومباحثہ کا بازار گرم ہوگیا۔‘‘ (ص ۵۹)

غامدی صاحب کے حلقہ فکر کے ساتھ مذکورہ مکالمے کے ضمن میں ہی والد گرامی نے اپنا یہ اصولی موقف بھی بیان کیا ہے کہ روایتی طورپر مستند اور مسلم چلے آنے والے نقطہ ہائے نظر سے بعد کے آنے والوں کو علمی ونظری طور پر اختلاف کا پورا حق حاصل ہے اور اگر کسی نئی رائے کو جمہور اہل علم کا اعتماد حاصل ہو جائے تو اسے عملی طو رپر اختیار بھی کیا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’کسی بھی شخصیت یا حلقہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے وضع کردہ اصولوں کو پوری امت کے لیے حتمی قرار دے کر امت کے تمام طبقات کو ان پر پرکھنا شروع کر دے، البتہ ان میں سے جس اصول کو امت میں اجماع کا درجہ حاصل ہو جائے یا کم از کم جمہور علما اس سے اتفاق کا اظہار کر دیں، اس کی بات مستثنیٰ ہے۔‘‘ (ص ۶۰)
’’ہمیں ان کے مطالعہ وتحقیق اور استنباط واستدلال کے حق سے کوئی انکار اور اختلاف نہیں ہے، مگر اس بات سے ضرور اختلاف ہے کہ وہ اپنے استدلال واستنباط کو صرف اس لیے حرف آخر قرار دے رہے ہیں کہ ان کی سوئی اس نکتہ سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ ان کی جو بات جمہور اہل علم کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل کر لے گی، ہمیں بھی اسے تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا اور اگر کوئی بات جمہور اہل علم کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگی تو بھی اسے قبول نہ کرنے کے باوجود دیگر اصحاب علم کے تفردات کی طرف ہم ان کا احترام کریں گے۔‘‘ (ص ۹۱، ۹۲)

والد گرامی نے یہی موقف اس سے کچھ عرصہ قبل روزنامہ ’’اوصاف‘‘ کے صفحات میں، جس کے وہ مستقل کالم نگار تھے، خلیفہ کے قریشی ہونے کی شرط کے حوالے سے جاری ایک بحث میں بھی پیش کیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ خلیفہ کے قریشی ہونے پر امت کا اجماع ہو گیا تھا۔ یہ بات درست ہے، لیکن خلافت بنو عباس کے خاتمہ کے بعد ترکوں کے آل عثمان کو ان کے قریشی نہ ہونے کے باوجود بطور خلیفۃ المسلمین قبول کر کے پوری امت نے خلیفہ کے لیے قریشی کی شرط ضرور نہ ہونے پر بھی اجماع کر لیا تھا جو صدیوں قائم رہا ۔۔۔ اس لیے اگر ایک دور میں خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط پر اجماع تھا بھی تو امت کے دوسرے اجماع کے بعد اس شرط کی وہ حیثیت قائم نہیں رہی۔‘‘ (روزنامہ اوصاف، ۶؍ اپریل ۲۰۰۰)

اس سے بھی کئی سال قبل ۱۹۹۲ء میں عورت کی حکمرانی کے جواز وعدم جواز کی بحث کے ضمن میں والد گرامی نے فقہی امور میں ماضی کے اجماعی موقف پر علمی بنیادوں پر نظر ثانی کے امکان اور گنجائش کو الشریعہ میں شائع ہونے والی اپنی ایک تحریر میں ان الفاظ میں بیان کیا:

’’اس مسئلے پر اجتہاد کے نام پر جانے والا کوئی بھی عمل اس چودہ سو سالہ اجتماعی تعبیر وتشریح اور متفقہ اجتہاد پر نظر ثانی اور اسے ری اوپن کرنے کا عمل کہلائے گا۔ اجتہادپر نظر ثانی اور اسے ری اوپن کرنے کی بھی کچھ شرائط ہیں اور اس کے کچھ عملی تقاضے ہیں۔ اگر ہمارے دوستوں کے پاس امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی کوئی بنیاد موجود ہو تو اسے سامنے لائیں اور اس سے علمی بحث کا آغاز کریں تاکہ اس بحث کا کوئی علمی فائدہ مرتب ہو اور بحث منطقی طور پر آگے بڑھ سکے، ورنہ جزوی واقعات، دور از کار تاویلات اور مرجوح اقوال کے سہارے ایک بات پر ضد کیے چلے جانا عام آدمی کے ذہن تو میں شاید تشویش پیدا کر سکے، علمی دنیا میں اس کا قطعاً کوئی وزن نہیں ہوگا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، جون/جولائی ۱۹۹۲ء)

اپنے اس اصولی موقف کے تناظر میں دور جدید کے مختلف حلقہ ہائے فکر کی مخصوص آرا کو علمی بحث وتمحیص کا موضوع بنانے اور عصر حاضر کے اجتماعی اجتہادی عمل میں ان کی آرا سے استفادے کی ضرورت کو والد گرامی نے ’الشریعہ میں‘ شائع ہونے والی اپنی تحریروں میں متعدد بار اجاگر کیا اور یہ سب کچھ حضرت شیخ الحدیث کی حیات میں شائع ہوا۔ مثال کے طور پر الشریعہ کے جون ۲۰۰۴ء کے شمارے میں جناب خورشید احمد ندیم کی تنظیم ’’ادارہ برائے تعلیم وتحقیق‘‘ کی چند مطبوعات پر تبصرہ کرتے ہوئے والد گرامی نے لکھا:

’’مذکورہ بالا ادارہ محترم جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانش وروں کا ادارہ ہے جس کے منتظم خورشید احمد ندیم ہیں۔ مختلف دینی اور علمی موضوعات پر ان کا ایک مستقل نقطہ نظر اور اسلوب فکر ہے جس کا اظہار ان کے مضامین کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے ہر نتیجہ فکر سے اتفاق کیا جائے اور ہم بھی جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کے فکر واسلوب سے بلاتامل اختلاف کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف پیش آمدہ دینی وملی مسائل پر دیگر مکاتب فکر کی طرح ان کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کی جائے اور علمی بحث ومباحثہ اور مکالمہ کی صورت میں بحث وتمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔‘‘ 

اسی طرح ۲۰۰۶ء میں جب جناب جاوید احمد غامدی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً استعفا دیا تو اس پر والد گرامی نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ:
’’میرے لیے یہ خبر افسوس اور رنج کا باعث بنی ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً استعفا دے دیاہے۔ غامدی صاحب علوم عربیہ کے ممتاز ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور دینی لٹریچر پر بھی ان کی گہری اور وسیع نظر ہے۔ اسلامی نظریہ کونسل میں ایسے فاضلین کی موجود گی بہت سے معاملات میں راہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کی فقہی مجلس میں جہاں بحث ومباحثے اور مشترکہ فکری کاوش کے ساتھ مسائل کا فقہی حل تلاش کیاجاتاتھا، مختلف اور متنوع علوم وفنون کے ماہرین شریک ہوتے تھے اور ان کی موجودگی اس بات کی ضمانت سمجھی جاتی تھی کہ مسئلے کے تمام علمی اور فنی پہلوؤں پر غور وخوض کے بعد اس کا حل پیش کیا گیاہے۔‘‘ (روزنامہ پاکستان، ۲۴؍ستمبر ۲۰۰۶ء)

روایتی مذہبی طبقات کے ہاں غیر روایتی علمی حلقوں کے ساتھ رابطے اور اخذ واستفادہ کے حوالے سے جو ایک عمومی منفی ذہنیت پائی جاتی ہے، والد گرامی نے اس پر بھی اپنی تحریروں میں تبصرہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل ۲۰۰۳ء کے اداریے میں لکھتے ہیں:

’’بد قسمتی سے ہم نے ایک بات کم وبیش حتمی سمجھ رکھی ہے کہ ہمارے روایتی حلقوں سے ہٹ کر کوئی بھی شخص یا ادارہ کوئی علمی یا دینی بات کرتا ہے تو وہ یقیناًگمراہی پھیلاتا ہے اور ہم نے اسے بہرحال مخالف کیمپ میں ہی دھکیلنا ہے۔ اگر تو ہم نئے پیش آمدہ مسائل پر غور وخوض اور ان کے حل کے لیے کوئی مربوط نظام رکھتے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ پیش آنے پر خود کار نظام کی طرح ہمارا کوئی نہ کوئی حلقہ یا مرکز اس پر غور وفکر اور بحث وتمحیص کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے تو پھر کسی حد تک یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سسٹم سے ہٹ کر بات کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے، لیکن کسی بھی مسئلہ پر ہمارے ہاں اس وقت تحریک ہوتی ہے جب دو چار حلقوں سے بات آ چکتی ہے اور ہم کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو دفاعی ضروریات کے تحت متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا سارا عمل دفاع اور تحفظات کے گرد گھومنے لگتا ہے اور اصل کرنے کا کام اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، غیر روایتی علمی حلقوں کے حوالے سے ترجیحات قائم کرنی چاہییں اور جہاں افہام وتفہیم سے کام لینا ممکن ہو، اسے موہوم گمراہی کی نذر کر دینے کے بجائے قابل قبول غیر روایتی حلقوں سے استفادہ کی صورتیں نکالنی چاہییں۔‘‘

اگست ۲۰۰۴ء کے شمارے میں ’’دینی مدارس میں تحقیق وتصنیف کی صورت حال‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے مقالے میں والد گرامی نے اسی رویے پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے کہ:

’’o تحقیق ومطالعہ کا جدید اسلوب، طریق کار، ذرائع اور بین الاقوامی سطح کے علمی وتحقیقی اداروں کے کام اور طرز سے استفادہ دینی مدارس کے نزدیک ابھی تک شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ صرف بین الاقوامی زبانوں سے ناواقفیت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بھی اس کا باعث ہے کہ ہمیں دنیا کے دیگر تمام حلقوں پر علمی اور فکری برتری حاصل ہے اور ہمیں کسی دوسرے حلقہ کے علمی کام سے واقف ہونے اور اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

o دینی مدارس میں عالم اسلام کے علمی حلقوں کی تحقیقات، دوسرے مسالک کے علمی کام اور غیر روایتی علمی مراکز کی تحقیقی مساعی سے استفادہ کو اپنی نفسیاتی برتری کے منافی تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بعد اور فاصلہ قائم رکھنے کو بھی تحفظاتی حکمت عملی کا ایک ناگزیر حصہ بنا لیا گیا ہے۔‘‘

اب آئیے، مباحثہ ومکالمہ کے حوالے سے ’’الشریعہ‘‘کی پالیسی اور اس ضمن میں دیوبندی مسلک سے وابستگی کے حوالے سے پیدا ہونے والی الجھن کی طرف۔ اس ضمن میں یوں تو والد گرامی کی وضاحتی تحریریں بار بار ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں، تاہم ’’الشریعہ‘‘ کی سترہویں جلد کے آغاز کے موقع پر جنوری ۲۰۰۶ء کے شمارے میں انھوں نے اس پالیسی کے اہم اور اساسی نکات کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ہمارا طریق کار یہ رہا ہے کہ بعض مسائل کو ہم از خود چھیڑتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہمارا موقف بھی وہی ہو جو کسی مسئلہ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ’الشریعہ‘ کے صفحات میں پیش کیا گیا ہے، مگر ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دینی حلقوں کے ارباب فکر ودانش اس طرف توجہ دیں، مباحثہ میں شریک ہوں،اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کریں، جس موقف سے وہ اختلاف کر رہے ہیں، اس کی کمزوری کو علمی انداز سے واضح کریں اور قوت استدلال کے ساتھ اپنے موقف کی برتری کو واضح کریں، کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ کسی مسئلہ پر آپ اپنی رائے پیش کر کے اس کے حق میں چند دلائل کا تذکرہ کرنے کے بعد مطمئن ہو جائیں کہ رائے عامہ کے سامنے آپ کا موقف واضح ہو گیا ہے اور آپ کی بات کو قبول کر لیا جائے گا۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے۔ آپ کو یہ سارے پہلو سامنے رکھ کر اپنی بات کہنا ہوگی اور اگر آپ کی بات ان میں سے کسی بھی حوالے سے کمزور ہوگی تو وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گی۔ ہم جب کسی مسئلے پر بحث چھیڑتے ہیں تو امکانی حد تک اس کے بارے میں تمام ضروری پہلووں کو اجاگر کرنا ہمارا مقصد ہوتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے والے کسی موقف کے حق میں یا اس کے خلاف موصول ہونے والا کوئی مضمون یا مراسلہ اشاعت سے رہ نہ جائے اور اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔

اس صورت حال سے بعض دوستوں کو الجھن ہوتی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، مگر ہمارے خیال میں یہ الجھن عام طور پر دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ بہت سے دوست ہمارے اس طریق کار اور مقصد کو سمجھ نہیں پاتے جس کا سطور بالا میں تذکرہ ہو چکا ہے اور دوسرا اس وجہ سے کہ ہمارے خاندانی پس منظر کے باعث بہت سے دوست ’الشریعہ‘ کو ایک مسلکی جریدہ کے طور پر دیکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مسلک ومشرب کا تعلق ہے، ہم نے سولہ برس قبل ’الشریعہ‘ کے پہلے شمارے میں ہی یہ بات دوٹوک طور پر واضح کر دی تھی کہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ میں سے ہیں اور اہل سنت کے مسلمات کی پابندی کو اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم فقہی مذہب کے لحاظ سے حنفی ہیں اور فروع واحکام میں حنفی مذہب کے اصول اور تعبیرات کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ مسلک ومشرب کے حوالے سے دیوبندی ہیں اور اکابر علماء دیوبند کثر اللہ جماعتہم کی جدوجہد اور افکار سے راہ نمائی حاصل کرنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتے ہیں، لیکن ’الشریعہ‘ کو مسلکی ترجمان کے طور پر ہم نے کبھی پیش نہیں کیا۔ مسلک کی ترجمانی کے لیے ملک میں درجنوں جرائد موجود ہیں اور ہم بھی اس مقصد کے لیے ان سے حتی الوسع تعاون کرتے ہیں، مگر ہمارا عملی میدان اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری تگ وتاز کا دائرہ فقہی اور مسلکی کشمکش نہیں، بلکہ مغرب کے فکر وفلسفہ اور تہذیب وثقافت کی وسیع تر یلغار کے تناظر میں اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید زبان اور اسلوب میں پیش کرنا ہے۔ اس کا مطلب فقہی اور مسلکی جدوجہد کی ضرورت سے انکار نہیں بلکہ یہ ایک تقسیم کار ہے کہ دینی جدوجہد کا یہ شعبہ ہم نے اپنی جدوجہد کے لیے مختص کر لیا ہے اور اسی میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنا چاہتے ہیں۔

بعض دوستوں نے یہ شکوہ کیا ہے کہ ’الشریعہ‘ میں بسا اوقات ایک ہی مسئلہ پر متضاد مضامین شائع ہوتے ہیں اور بعض مضامین اہل سنت، حنفیت اور دیوبندیت کے حوالوں سے روایتی موقف سے متصادم ہوتے ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے، مگر اس کی وجہ وہی ہے جس کا سطور بالا میں ہم تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہم علمی وفکری مسائل میں ارباب علم ودانش کو بحث ومباحثہ کے لیے کھلا ماحول اور فورم مہیا کرنا چاہتے ہیں اور دینی حلقوں میں باہمی مکالمہ کا ذوق بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طریق کار ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جاری رہے گا۔‘‘
اس پالیسی کے تحت حضرت شیخ الحدیث کی حیات میں جن اہم علمی بحثوں کو ’’الشریعہ‘‘ میں جگہ دی گئی، ان پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا:

۲۰۰۱ء میں ہونے والے علمی مکالمے کے بعد ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۹ء تک غامدی صاحب کے افکار اور ان پر نقد وجرح ’’الشریعہ‘‘ کا غالباً نمایاں ترین موضوع بنا رہا اور غامدی صاحب کے نظریات سے متعلق مختلف اہل قلم کی تنقیدی تحریریں اور ان کے جوابات ’’الشریعہ‘‘ میں ایک تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ تنقیدی تحریروں میں اہم یہ تھیں:

اسلام اور تجدد پسندی از ڈاکٹر محمد امین (جنوری ۲۰۰۶ء)

غامدی صاحب کے تصور فطرت کا تنقیدی جائزہ از حافظ محمد زبیر (فروری ۲۰۰۷ء)

قراء ات متواترہ کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ از حافظ محمد زبیر (جون ۲۰۰۷ء)

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (چار اقساط) از حافظ محمد زبیر (نومبر ۲۰۰۷ء تا فروری ۲۰۰۸ء)

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ از محمد زاہد صدیق مغل (فروری ۲۰۰۸ء)

کیا فطرت اصلاً یا تبعاً مصدر شریعت ہے؟ از حافظ محمد زبیر (مئی ۲۰۰۸ء)

غامدی صاحب کا ’’تصور سنت‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (جون ۲۰۰۸ء)

حلال وحرام اور غامدی صاحب کا تصور فطرت از حافظ محمد زبیر (جون ۲۰۰۸ء)

جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطہ نظر از الیاس نعمانی ندوی (اگست ۲۰۰۸ء)

ان تنقیدات کے جواب میں غامدی صاحب کے حلقہ فکر کی طرف سے درج ذیل تحریریں ’الشریعہ‘ میں شائع ہوئیں:

ناقدین کی خدمت میں از طالب محسن؍محمد عثمان (جنوری ۲۰۰۶ء)

اصولوں پر تنقید از طالب محسن (جولائی ۲۰۰۶ء)

محمد ابراہیم شیخ کا مکتوب (مارچ ۲۰۰۷ء)

غامدی صاحب کے تصور فطرت پر اعتراضات کا جائزہ از سید منظور الحسن (جولائی ۲۰۰۷ء)

غامدی صاحب کا تصور فطرت۔ چند توضیحات از سید منظور الحسن (ستمبر ۲۰۰۷ء)

غامدی صاحب کے تصور ’کتاب‘ پر اعتراضات از سید منظور الحسن (نومبر ۲۰۰۷ء)

محمد رفیع مفتی کا مکتوب (اگست ۲۰۰۸ء)

غامدی صاحب کے تصور سنت پر اعتراضات کا جائزہ (چار اقساط) از سید منظور الحسن (جنوری تا اپریل ۲۰۰۹ء)

نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس خطے میں جہادی تحریکات کی حکمت عملی اور اس کے نتائج واثرات کا، ایک زندہ اور بے لاگ بحث ومباحثہ کا موضوع بننا ناگزیر تھا۔ الشریعہ نے اس اہم ضرورت کو بالکل بروقت محسوس کیا اور اس بحث کو اپنے دائرۂ موضوعات میں نمایاں طو رپر شامل کیا۔ نومبر؍دسمبر ۲۰۰۲ء میں الشریعہ کے رئیس التحریر کا ایک اہم مکتوب، جو سہ ماہی مصباح الاسلام کے مدیر کے نام لکھا گیا تھا، الشریعہ کے ٹائٹل کے اندرونی صفحے پر شائع ہوا جس میں انھوں نے لکھا کہ:

’’طالبان حکومت کے بارے میں بحث کے حوالے سے مجھے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے کہ ان کی پالیسیوں پر بحث نہیں ہونی چاہیے اور ان کی کوتاہیوں کو سامنے نہیں آنا چاہیے۔ ان کے اخلاص، ایثار، قربانی، للہیت اور صدق وصفا میں کوئی شبہ نہیں، لیکن اس کا مطلب معصوم ہونا نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ خود احد اور حنین کے حوالے سے صحابہ کرام جیسی پاک باز ہستیوں کی بشری غلطیوں کو قرآن کریم میں اجاگر کر سکتے ہیں تو ہمیں اس میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ پوری سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ اس امر کا جائزہ لیں کہ کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے اور ماضی کی غلطیوں کے ازالہ کے لیے مستقبل میں کیا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس صورت حال پر مباحثہ کی ضرورت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے ابھی شاید وقت موزوں نہ ہو، لیکن جلد یا بدیر ہمیں اس مرحلہ سے گزرنا ہوگا، ورنہ مستقبل کی صحیح منصوبہ بندی میں ہم کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔‘‘

اس تناظر میں جہادی تحریکات کی حکمت عملی کے حوالے سے جو اہم تنقیدی تحریریں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی حیات میں ’الشریعہ‘ کے صفحات پر شائع ہوئیں، وہ حسب ذیل ہیں:

جہادی تحریکات اور ان کا مستقبل۔ ابو عمار زاہد الراشدی (جنوری ۲۰۰۲ء)

خواب جو بکھر گیا! طالبان کی شکست کے اسباب وعوامل کا ایک جائزہ۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (جنوری ۲۰۰۳ء)

ان کی پرکاری اور ہماری سادگی۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (جنوری فروری ۲۰۰۴ء)

جہادی حکمت عملی: مثبت اور منفی پہلو (مارچ ۲۰۰۴ء)

پاکستان کی جہادی تحریکیں: ایک تاریخی وتحقیقی جائزہ ۔ حافظ محمد زبیر (نومبر؍دسمبر ۲۰۰۸ء)

جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پر ایک نظر۔ عبد المالک طاہر (مارچ ۲۰۰۹ء)

مسجد اقصیٰ کی تولیت کے مسئلے پر راقم الحروف کی تحریر ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ کے عنوان سے ستمبر ؍اکتوبر ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس میں جو نقطہ نظر اختیار کیا گیا، اس پر علمی حلقوں میں اضطراب پیدا ہونا فطری تھا، چنانچہ ’’الشریعہ‘‘ کے علاوہ متعدد دیگر جرائد ورسائل میں بھی اس پر زور دار بحث چلی جو ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر وقفے وقفے سے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک جاری رہی۔ اس ضمن کی اہم تحریریں حسب ذیل ہیں:

مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ از محمدعمار خان ناصر (ستمبر ؍اکتوبر ۲۰۰۳ء )

ارض فلسطین پر یہود کا حق از محمد عمار خان ناصر (ستمبر اکتوبر ۲۰۰۳ء)

مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار کون؟ از مولانا محمد یوسف (دسمبر ۲۰۰۳ء)

مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ (مختلف ناقدین کی آرا) (دسمبر ۲۰۰۳ء)

مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ: تنقیدی آرا کا جائزہ از محمد عمار خان ناصر (اپریل ؍مئی ۲۰۰۴ء)

مسجد اقصیٰ کی تولیت: ایک تاریخی وتحقیقی جائزہ از حافظ محمد زبیر (مارچ ۲۰۰۷ء)

مسجد اقصیٰ کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات از محمد عمار خان ناصر (مارچ ۲۰۰۷ء)

مدیر ’’محدث‘‘ کے ساتھ عمار خان ناصر کی مراسلت (اپریل ۲۰۰۷ء)

شیعہ سنی اختلافات اور ان کی بنیاد پر شدت پسندی اور قتل وغارت گری کا موضوع بھی الشریعہ میں خاص اہمیت کے ساتھ زیر بحث لایا جاتا رہا ہے۔ اہل تشیع کی تکفیر کے حوالے سے حضرت شیخ الحدیث کا موقف واضح تھا، تاہم ان کی زندگی میں اس رائے سے اختلاف کرنے والے متعدد مضامین الشریعہ میں شائع ہوئے، مثلاً:

شیعہ سنی تعلقات اور متوازن رویہ۔ ایک شیعہ عالم کے خیالات ۔ ڈاکٹر یوگندر سکند (اگست ۲۰۰۴ء)

شیعہ سنی مسئلہ مولانا دریابادی کی نظر میں۔ محمد موسیٰ بھٹو (دسمبر ۲۰۰۴ء)

شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو ۔ سید فخر الحسن کراروی (جنوری ۲۰۰۵ء)

شیعہ سنی مکالمہ: الشیخ قرضاوی کے خیالات۔ ڈاکٹر یوگندر سکند (اپریل ۲۰۰۵ء)

شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل۔ ڈاکٹر محمد امین (مئی ۲۰۰۵ء)

اس کے جواب میں تکفیر شیعہ کے موقف کی تائید میں درج ذیل تحریریں شائع کی گئیں:

تکفیر شیعہ سے متعلق چند ضروری وضاحتیں۔ حافظ عبد الرشید (جولائی ۲۰۰۵ء)

اہل تشیع کی تکفیر کا مسئلہ ۔ آفتاب عروج؍حافظ محمد عثمان (اکتوبر ۲۰۰۵ء)

دور جدید میں اجتہاد کا تصور، اس کے حدود وقیود اور اجتہاد کی اہلیت، علمی سطح پر بحث ومباحثہ کا ایک اہم عنوان ہے اور اس حوالے سے روایتی وغیر روایتی نقطہ ہائے نظر کی باہمی کشمکش ایک معلوم حقیقت ہے۔ اس تناظر میں ’الشریعہ‘ میں بھی اس بحث کے اہم اصولی پہلوؤں پر مختلف حلقہ ہائے فکر کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے اور قارئین بہت سی نرم گرم بحثیں الشریعہ کے صفحات پر ملاحظہ کرتے رہے ہیں۔ 

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی حیات میں اس ضمن میں جو مضامین شائع ہوئے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

تجدد پسندوں کا تصور اجتہاد۔ ابو عمار زاہد الراشدی (جنوری ۲۰۰۷ء)

علامہ اقبال کا تصور اجتہاد اور علمائے کرام ۔ یوسف خان جذاب (جنوری ۲۰۰۷ء)

سید حسین احمد مدنی اور تجدد پسندی۔ میاں انعام الرحمن (فروری ۲۰۰۷ء)

حضرت مدنی اور تجدد پسندی۔ مفتی رشید احمد علوی (مارچ ۲۰۰۷ء)

در جواب آں غزل۔ امجد علی شاکر (مارچ ۲۰۰۷ء)

سید مدنی، تجدد پسندی اور قدامت پسند حلقے۔ میاں انعام الرحمن (اپریل ۲۰۰۷ء)

اسلام کی تشکیل نو کی تحریکات اور مارٹن لوتھر۔ ابو عمار زاہد الراشدی (مارچ ۲۰۰۷ء)

الشریعہ کی ادارتی ٹیم میں برادرم میاں انعام الرحمن صاحب کی شمولیت ۲۰۰۱ء میں ہوئی۔ اس کے بعد سے روایتی مذہبی حلقوں کے طرز فکر اور طرز عمل سے متعلق ان کے ’’باغیانہ‘‘ خیالات ایک جارحانہ اسلوب نگارش میں تسلسل کے ساتھ الشریعہ کے صفحات پر شائع ہوتے رہے ہیں اور متعدد بار ناقدین کی طرف سے اسی جوابی اسلوب میں ’’داد‘‘ بھی وصول کر چکے ہیں۔ تصور اجتہاد کے حوالے سے ان کے چند مضامین کا گزشتہ سطور میں ذکر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ مثال کے طور یہ چند مضامین دیکھیے:

سماجی تبدیلی کے نئے افق اور امت مسلمہ۔ میاں انعام الرحمن (اگست ۲۰۰۳ء)

برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ۔ میاں انعام الرحمن (مارچ ۲۰۰۴ء)

دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت ۔ میاں انعام الرحمن (جون ۲۰۰۴ء)

قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ ۔ میاں انعام الرحمن (جنوری ۲۰۰۶ء)

دور جدید کی اجتہادی ضروریات کے تناظر میں روایتی فقہی حد بندیوں سے اٹھ کر وسیع تر دائرے میں امت کی مجموعی علمی میراث سے فائدہ اٹھانے کا تصور بھی ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہونے والی تحریروں میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ اس ضمن کی ایک اہم تحریر، جو مولانا مناظر احسن گیلانی کے قلم سے ہے، نومبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں شائع ہوئی جس میں مولانا فرماتے ہیں:

’’الف ثانی کے مجدد ہند رحمۃ اللہ علیہ نے ارقام فرمایا ہے: .. ’’اس خطہ ہندوستان میں جہاں ابتلا کی یہ صورت زیادہ پیش آئی ہے تو عموم بلویٰ (عام مصیبت) کی حیثیت اس مسئلہ نے اختیار کر لی ہے۔ یعنی بہتر اور زیادہ پسندیدہ بات ہے کہ فتویٰ اس پہلو کے مطابق دیا جائے جو آسان اور زیادہ سہل ہو، خواہ فتویٰ دینے والے مفتی کے مسلک کے مطابق یہ فتویٰ نہ ہو۔ کسی دوسرے مجتہد کے قول کے مطابق فتویٰ کا ہونا ایسی صورت میں کافی ہے۔‘‘

عام مولویوں کے لیے ظاہر ہے کہ فتوے میں اتنی مطلق العنانی ذرا مشکل ہی سے قابل برداشت خصوصاً اس زمانہ میں ہو سکتی تھی جس زمانے میں مجدد رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے تھے کہ ندوہ اس وقت تک ہندوستان میں قائم نہیں ہوا تھا، اس لیے بجائے فقہ یا آثار واخبار کے اس موقع پر حضرت مجدد نے قرآنی آیات ہی کو استدلال میں پیش کیا ہے۔ ۔۔۔ معمولی عام کتابوں میں تلفیق کے نام سے مسلمانوں میں خوف ودہشت کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے، یعنی مجتہدین ائمہ ہدیٰ میں سے کسی ایک امام کے اجتہادی نتائج کے ساتھ ہم آہنگی کا فیصلہ تاریخ کے مختلف وجوہ واسباب کے تحت مختلف ممالک کے مسلمانوں کو کرنا پڑا تو سمجھایا جاتا ہے کہ آیندہ اپنے اپنے ما نے ہوئے امام کے خلاف عمل کی اجازت ان کی آیندہ نسلوں کو نہیں دی جائے گی۔ ایسے آدمی کو فعل مذموم اور ’’عمل تلفیق‘‘ کا مرتکب ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ واقع کے لحاظ سے مسئلہ کی صحیح صورت حال ۔۔۔ یہ نہیں ہے۔‘‘

اسی ضمن میں اگست ۲۰۰۷ء کے شمارے میں اسلامی قانون کے ممتاز ماہر جناب ڈاکٹر تنزیل الرحمن کا ایک مضمون ’’دور جدید کی اجتہادی ضروریات اور تقاضے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے عصر حاضر میں مختلف اسلامی ممالک میں کیے جانے والے اہم قانونی اجتہادات کی مثالیں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اگر ہم گزشتہ صدی کے اسلامی ادب میں قانون سازی کے حالیہ مضمرات کا مطالعہ کریں جس کا آغاز اکثر اسلامی ممالک میں اس صدی کے ربع اول میں ہوا تو ہمیں بہت سی ایسی قانونی دفعات ملیں گی، خصوصاً عائلی قوانین جن میں اضافی اجتہاد سے کام لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ترکی، پاکستان اور ایران کے قوانین ہیں جن کی رو سے ہر ملک کے اپنے اپنے قوانین نکاح میں بعض جزئی اختلافات کے ساتھ ضروری قرار دیا گیاہے کہ طلاق کا اندارج یا توثیق ریاست کی مقرر کردہ کسی ہیئت (اتھارٹی) سے کروائی جائے۔تعدد ازواج کے معاملے میں بھی عراق، شام، مراکش، اردن، پاکستان اور کچھ دیگر اسلامی ممالک میں مردوں کے اس بلاقید اختیار پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہیں،تاہم تیونس کے قانون میں تعدد ازواج پر مکمل پابندی لگا د ی گئی ہے۔ اس معاملے میں تیونس کا قانون دیگر مسلم ممالک کے مقابلہ میں منفرد ہے۔

مصر میں تمام طلاقیں، سوائے اس طلاق کے جو دخول سے پہلے دی گئی ہو یا وہ جس کا معاوضہ لے لیا گیاہو یا وہ تین طلاقیں جوتین طہر میں دی گئی ہو ں، ۱۹۲۹ء کے قانون کی رو سے رجعی قرار دے دی گئی ہیں۔ سوڈان میں ایکٹ ۱۹۳۵ء کے مطابق ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دے دیا گیا ہے۔ شام میں بھی ایکٹ ۱۹۵۳ء کی رو سے ایسا ہی قانون اپنا لیا گیاہے جیسامصر میں رائج ہے۔ عراق، مراکش اور اردن میں بھی انہی خطوط پر قانون بنائے گئے ہیں، تاہم لبنان اور انڈونیشیا میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں کو غیر رجعی سمجھا جاتاہے اور مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ حلالہ کے بغیر اس عورت سے دوبارہ نکاح کر لے۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی یہی صورت رائج ہے۔ پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈی نینس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تحت طلاق سوائے اس صورت کے جبکہ اس سے رجوع کر لیا گیا ہو، یونین کمیٹی کے چیئرمین کو خاوند کی جانب سے جس نے طلاق دی ہے، قطع نظر اس امر کے کہ ایک طلاق دی ہے یا دو یا تین یا زیادہ طلاقیں اور یہ کہ ایک وقت میں دی ہیں یا مختلف اوقات میں،طلاق کا نوٹس ملنے کی تاریخ سے نوے دن گزر جانے کے بعد موثر ہوتی ہے۔

قانون وراثت میں روایتی قانون کے مطابق یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کی وراثت سے محروم رہتے ہیں، لیکن مصر کے قانون انتظام و صیت مجریہ ۱۹۴۶ء کے تحت لازمی میراث کا طریقہ رائج کیا گیا ہے جس کے مطابق یتیم پوتوں اور پوتیوں کو اپنے دادا کی میراث میں اتنے حصے کا مستحق قرار دیا گیا ہے جتنا حصہ ان کے والدین کو زندہ ہونے کی صورت میں ملتا۔ تاہم یہ حصہ کل میراث کے ایک تہائی حصے سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

اسی ضمن میں زیر بحث آنے والے ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کا حکم کیا ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے مختلف اوقات میں درج ذیل تحریروں نے الشریعہ میں جگہ پائی جن میں سے یہ رجحان پیش کیا گیا تھا کہ بحالات موجودہ عملی مصالح کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جائے:

مسئلہ طلاق ثلاثہ۔ علماء کرام توجہ فرمائیں۔ ڈاکٹر محمد اکرم ورک (جون ۲۰۰۵ء)

مسئلہ طلاق ثلاثہ اور فقہائے امت۔ محمد افتخار تبسم نعمانی (جون ۲۰۰۶ء)

ان کے تقابل میں حضرت شیخ الحدیث کی درج ذیل تحریر بھی بحث میں شامل کی گئی:

تین طلاقوں کے بارے میں جمہور کا موقف۔ مولانا سرفراز خان صفدر (جولائی ۲۰۰۶ء)

الشریعہ میں شائع ہونے والے درج ذیل مضامین میں بہت سے ایسے فکری سوالات اٹھائے گئے ہیں جو اپنے نظری اور عملی حل کے لیے اہل علم کی توجہ کے منتظر اور غیر روایتی زاویہ نظر کے متقاضی ہیں:

مسلمان معاشرے اور تعلیمات اسلام، فکری کنفیوژن کیوں؟ ارشاد احمد حقانی (جولائی ۲۰۰۲)

عصر حاضر میں اسلامی فکر۔ چند توجہ طلب مسائل۔ نجات اللہ صدیقی (جولائی ۲۰۰۲)

فکری مسائل کے حوالے سے چند اہم گزارشات۔ ابو عمار زاہد الراشدی (جولائی ۲۰۰۲)

عالم اسلام کے فکری مسائل۔ خورشید احمد ندیم/ منظور الحسن (اگست ۲۰۰۲)

مسلم امہ کو درپیش فکری مسائل ۔ ڈاکٹر محمد امین (فروری ۲۰۰۳ء)

فکر اسلامی کو درپیش عصری چیلنج۔ تجمد اور تجدد کے درمیان راہ توسط کی تلاش۔ ڈاکٹر محمد امین (ستمبر ۲۰۰۷ء)

علمی وفکری مسائل سے متعلق راقم الحروف کی بہت سی غیر روایتی آرا بھی گزشتہ کافی عرصے سے بحث ومباحثہ اور نقد وجرح کا موضوع ہیں او ر روایتی مذہبی فکر سے وابستہ اہل علم اپنے زاویہ نظر سے بجا طور پر ان سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ والد گرامی نے اس ضمن میں بھی اپنا نقطہ نظر حضرت شیخ الحدیثؒ کی حیات میں ایک سے زائد مرتبہ واضح کیا اور اس نوع کی وضاحتیں متعدد بار الشریعہ کے صفحات پر شائع ہوئیں۔ مثال کے طور پر اپریل؍مئی ۲۰۰۴ء کے شمارے میں والد گرامی نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے ضمن میں میرے نقطہ نظر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:

’’عزیزم سلمہ نے ایک علمی وتحقیقی عنوان پر اپنے مطالعہ وتحقیق کا حاصل اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ میں خود اس پر اپنے موقف اور بعض تحفظات کا اظہار اپنے تبصرہ میں کر چکا ہوں جو ’’الشریعہ‘‘ کے ایک گزشتہ شمارے میں شائع ہو چکا ہے، لیکن میں اسے اس عزیز کا بلکہ مطالعہ وتحقیق سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کا حق سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے مطالعہ وتحقیق کے نتائج کو سامنے لائے اور اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرے اور اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ طعن وتشنیع کا سہارا لینے کے بجائے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرے اور اس کا اختلاف بھی اسی طرح ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات کی زینت بنے مگر مجھے افسوس ہے کہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ناظم اور ہمارے رفیق کار مولانا حافظ محمد یوسف کے سوا کسی اور اختلاف کرنے والے دوست نے اسے سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کا موضوع نہیں بنایا جبکہ ہماری خواہش ہے کہ اہل علم آج کی دنیا کے ایک اہم بین الاقوامی تنازع کے اس علمی پہلو کو سنجیدگی سے لیں اور دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کریں کیونکہ علمی مباحثہ کے ساتھ ہی اس قسم کے مسائل میں اصل صورت حال تک رسائی ہوتی ہے۔‘‘ 

دسمبر ۲۰۰۷ء میں میرا ایک مفصل مقالہ ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ کے زیر عنوان ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوا جس میں، میں نے مقاصد شریعت کی بنیاد پر منصوص احکام میں تبدیلی کے تصور کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے امور پر ازسرنو غور وفکر کی ضرورت واضح کی تھی جو روایتی طور پر طے شدہ سمجھے جاتے ہیں۔ والد گرامی نے اس مضمون کی تمہید کے طور پر ایک تفصیلی شذرہ لکھا جس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:

’’عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک سیمینار میں پڑھے جانے والے زیر نظر مقالہ میں مسئلہ کے ان دونوں پہلووں کا جائزہ لیا ہے اور انتہائی عرق ریزی اور نکتہ رسی کے ساتھ اس کے مختلف زاویوں کو اہل علم کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے مقالہ کے دونوں پہلووں سے اصولی طور پر اتفاق ہے کہ : ۱۔ مقاصد ومصالح کے معیارات تبدیل ہو جانے کی بنیاد پر قرآن وسنت کے صریح احکام میں تغیر وتبدل کا کوئی جواز نہیں ہے، اور ۲۔ جو امور اجتہاد کے دائرے میں آتے ہیں اور جن مسائل ومعاملات میں احوال وزمانہ کے تغیرات کا مجتہدین کے ہاں ہمیشہ لحاظ رکھا جاتا رہا ہے، ان میں قطعی جمود کی موجودہ صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت آج بھی موجود ہے جو زمانے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ البتہ اس مقالہ کی تمام جزئیات اور ترجیحات سے اتفاق ضروری نہیں ہے اور ہر علمی بحث ومباحثہ کی طرح اس کے مختلف پہلووں پر بھی مزید بحث، اختلاف اور نقد کی گنجایش موجود ہے۔‘‘

۲۰۰۸ء میں ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کے نام سے میری ایک تصنیف المورد کے زیر اہتمام شائع ہوئی جس میں حدود وتعزیرات سے متعلق شرعی احکام کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں عصر حاضر کی اہم علمی بحثوں کا ایک طالب علمانہ مطالعہ پیش کیا گیا تھا۔ والد گرامی نے اس پر تفصیلی پیش لفظ لکھا جو الشریعہ کے اکتوبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں ’’اسلامی شریعت کی تعبیر وتشریح۔ علمی وفکری سوالات ‘‘ کے عنوان سے کلمہ حق کے طو رپر شائع ہوا۔ والد گرامی نے اس میں لکھا کہ:

’’کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے علمی بحث ومباحثہ کا میدان محدود نہیں رہنا چاہیے اور نہ ہی ماضی میں اہل علم کے ہاں اس کا دائرہ کبھی تنگ رہا ہے۔ ہماری علمی روایت یہ چلی آ رہی ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر بحث ومباحثہ ہمیشہ کھلے دل ودماغ سے کیا گیا ہے، مسئلہ کے ہر پہلو پر بات ہوئی ہے، تجزیہ وتنقیح کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا اور استدلال واستنباط کی کوئی گنجایش ادھوری نہیں رہنے دی گئی، کیونکہ جس طرح کسی مقدمے میں صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے تفتیش کے کسی امکانی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح کسی علمی مسئلے میں صحیح نتیجے تک رسائی کے لیے اس کے تمام امکانی پہلووں کو کھنگالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور اسی وجہ سے میں اہل علم میں بحث ومباحثہ کے لیے کھلے ماحول کو پسند کرتا ہوں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔

آج کے نوجوان اہل علم جو اسلام کے چودہ سو سالہ ماضی اور جدید گلوبلائزیشن کے ثقافتی ماحول کے سنگم پر کھڑے ہیں، وہ نہ ماضی سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں اور نہ مستقبل کے ناگزیر تقاضوں سے آنکھیں بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ماضی کے علمی ورثہ کے ساتھ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے قدیم وجدید میں تطبیق کی کوئی قابل قبول صورت نکل آئے، مگر انھیں دونوں جانب سے حوصلہ شکنی کا سامنا ہے اور وہ بیک وقت ’قدامت پرستی‘ اور ’تجدد پسندی‘ کے طعنوں کا ہدف ہیں۔ مجھے ان نوجوان اہل علم سے ہمدردی ہے، میں ان کے دکھ اور مشکلات کو سمجھتا ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتا ہوں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ امت کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس نہ ہو، کیونکہ اس دائرے سے آگے بہرحال گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے۔

عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے اسی علمی کاوش کا سلسلہ آگے بڑھایا ہے اور زیادہ وسیع تناظر میں حدود وتعزیرات اور ان سے متعلقہ امور ومسائل پر بحث کی ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے ہر پہلو سے اتفاق کیا جائے، البتہ اس علمی کاوش کا یہ حق ضرور بنتا ہے کہ اہل علم اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، بحث ومباحثہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے مثبت ومنفی پہلووں پر اظہار خیال کریں اور جہاں کوئی غلطی محسوس کریں، اسے انسانی فطرت کا تقاضا تصور کرتے ہوئے علمی مواخذہ کا حق استعمال کریں تاکہ صحیح نتیجے تک پہنچنے میں ان کی معاونت بھی شامل ہو جائے۔‘‘

(حضرت شیخ الحدیث کی بیماری کے آخری ایام میں میری اس تصنیف کی شکایت حضرت کے سامنے پیش کی گئی تھی اور اس کے کچھ ’’ایمان سوز‘‘ اقتباسات بھی حضرت کو پڑھ کر سنائے گئے تھے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس موقع پر صر ف میرے اقتباسات سنانے پر اکتفا کی گئی ہو اور ’’اصل بات‘‘ حضرت کے سامنے پیش نہ کی گئی ہو، یعنی یہ کہ آپ کے منتخب کردہ جانشین نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا ہے اور صاحب کتاب کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کا اپنا فریضہ قرار دیا ہے۔ )

اس تحریر میں ’’الشریعہ‘‘ میں جگہ پانے والے جملہ مباحث کا استقصا ظاہر ہے کہ مقصود نہیں، تاہم مذکورہ جائزے سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ مختلف اور متنوع علمی سوالات اور فقہی واجتہادی موضوعات کو زیر بحث لانے اور اس پر کوئی بھی نقطہ خیال رکھنے والے اہل علم کو آزادی سے اپنا موقف پیش کرنے کی روایت کم از کم ان آٹھ نو سالوں میں ایک مستقل پالیسی اور معمول کے طور پر جاری تھی۔ چنانچہ یہ اعتراض بالکل بے سروپا ہے کہ یہ منہج حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد اختیار کیا گیا ہے۔ یہ کہنا بھی ایک دور از کار توجیہ کے مترادف ہوگا کہ یہ چیز حضرت شیخ کے سامنے اور ان کے علم میں نہیں تھی۔ اول تو جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، وہ خود باقاعدہ الشریعہ کے قاری تھے اور ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس عرصے میں شائع ہونے والے بہت سے مباحث براہ راست ان کی نظر میں تھے۔ شدید علالت کے زمانے میں وہ خود مطالعہ نہیں کر سکتے تھے، لیکن وہ اپنے پاس موجود خادمین سے اخبارات، رسائل اور کتابیں پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ بالفرض وہ خود نہ بھی پڑھتے یا پڑھوا کر سنتے ہوں، پھر بھی اپنے خاندان میں، اپنی سرپرستی میں اور اپنے بیٹے اور جانشین کی زیر ادارت شائع ہونے والے مجلے کے رجحانات اور مسائل ومباحث سے وہ کسی طرح بے خبر نہیں رہ سکتے تھے۔ الشریعہ ان کے خاندان میں اور ارد گرد کے ماحول میں ہر جگہ پڑھا جاتا تھا اور اس میں شائع ہونے والے بعض مباحث، مثلاً طلاق ثلاثہ سے متعلق مضامین پر تو کئی لوگ باقاعدہ شکایت لے کر ان کے پاس گئے تھے۔ 

یہ توجیہ بھی بدیہی طور پر بے کار ہوگی کہ وہ علالت کی وجہ سے اس معاملے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، کیونکہ ان کا والد گرامی اور خاندان کے تمام قریبی افراد سے مسلسل رابطہ تھا اور وہ جملہ معاملات سے باخبر بھی رہتے تھے اور اپنی رائے بھی دیا کرتے تھے۔ اپنے آخری دنوں کی شدید علالت میں انھوں نے عم مکرم مولانا عبد الحق خان بشیر سے مولانا طارق جمیل کے بعض نظریات پر اپنی راہ نمائی میں تنقید لکھوا ئی تھی اور باقاعدہ سن کر اس کی تصویب کی تھی۔ غرض کوئی وجہ یا کوئی عذر ایسا نہیں تھا جو والد گرامی کے طرز فکر یا الشریعہ کی پالیسی کے معاملے میں انھیں رائے دینے یا والد گرامی کو طلب کر کے ان سے اس کے متعلق گفتگو کرنے میں مانع ہو۔ اس کے باوجود انھوں نے والد گرامی کے اس رجحان پر کبھی ان کا مواخذہ نہیں کیا کہ وہ دور جدید کے علمی وفکری سوالات کے تناظر میں توسع سے کام لیتے ہوئے مختلف علمی حلقوں سے استفادہ کی ضرورت کے کیوں قائل ہیں یا ’’الشریعہ‘‘ کو آزادانہ علمی بحث ومباحثہ کا فورم کیوں بنا رکھا ہے یا آزاد فکری کی روش اختیار کرنے پر عمار کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کیوں کر رہے ہیں۔ الشریعہ کی پالیسی، والد گرامی کا انداز نظر اور الشریعہ میں زیر بحث آنے والے موضوعات، یہ سب چیزیں ان کے سامنے تھیں اور ان حقائق کے معلوم ہوتے ہوئے انھوں نے اپنی علمی جانشینی کے لیے والد گرامی کا انتخاب کیا، انھیں مدرسہ نصرۃ العلوم میں اپنی جگہ تدریس کے منصب پر بٹھایا اور اپنی نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت فرمائی۔ 

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رحمہ اللہ شاید ’الشریعہ‘ میں زیر بحث آنے والے مسائل میں روایتی مذہبی حلقے کی نمائندگی کو کمزور محسوس کرتے تھے اور بات ان کے علمی وتحقیقی مزاج کے عین مطابق معلوم ہوتی ہے، کیونکہ خود انھوں نے جن اختلافی مباحث پر اپنی تصانیف میں داد تحقیق دی ہے، ان میں کہیں بھی کسی سوال یا موقف سے نظریں چرانے یا قاری کو یک طرفہ معلومات ودلائل فراہم کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ ان کی تصانیف کے قاری جانتے ہیں کہ وہ مخالف کا موقف خود اس کے اپنے الفاظ میں اور بسا اوقات طویل اقتباسات کی صورت میں نقل کرتے ہیں اور پھر جواب میں ایک ایک شق پر تفصیلی گفتگو فرماتے ہیں۔ خاص طور پر ماحول میں موجود کسی بحث یا سوال کے حوالے سے، جو علمی ودینی طور پر جواب طلب ہو، انھوں نے کبھی وہ رویہ نہیں اپنایا جو اب ان کے منتسبین کے ہاں غالب دکھائی دیتا ہے، یعنی یہ کہ فلاں مسئلہ تو طے شدہ ہے اور سرے سے قابل بحث ہی نہیں، اس لیے اس پرگفتگو کرنے یا مخالف موقف کے دلائل کو علمی طور پر موضوع بحث بنانے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ’الشریعہ‘ میں اٹھائے جانے والے مباحث کے حوالے سے روایتی مذہبی حلقے کا رد عمل بنیادی طور پر یہی رہا ہے اور بحث میں مثبت طور پر شریک ہو کر علمی طور پر اپنے موقف کا وزن ثابت کرنے کے بجائے بالعموم یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ جب یہ مسائل ’’ہمارے‘‘ اکابر کے ہاں طے شدہ ہیں تو ان پر بحث ومباحثہ کی دعوت ہی کیوں دی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس رویے کے ساتھ علمی مباحث میں اپنے نقطہ نظر کی ترجمانی اس علمی سطح کی نہیں ہو سکتی جس کی خواہش حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ رکھتے تھے، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کی اس فکرمندی کا تعلق ’الشریعہ‘ کی پالیسی سے نہیں، بلکہ روایتی مکتب فکر کی ترجمانی کرنے والوں کے طرز تحریر کی کمزوری سے تھا۔ ’الشریعہ‘ نے اگر قصداً اور جانب داری سے کام لیتے ہوئے بحث کے کسی فریق کے موقف کو کمزور دکھانے کی کوشش کی ہو تو اسے اس پر مورد الزام ٹھہرانا بجا ہوگا، لیکن اگر کمزوری بحث میں شریک ہونے والوں کے ہاں پائی جاتی ہو تو اس کی ذمہ داری، ظاہر ہے کہ ’الشریعہ‘ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ الحدیث کی طرف سے کسی بھی موقع پر ’الشریعہ‘ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے یا مباحثہ ومکالمہ کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا مشورہ یا ہدایت نہیں کی گئی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد اپنا طرز عمل ’’الشریعہ‘‘ نے نہیں، بلکہ ان حضرات نے بدلا ہے جن کی آنکھیں، کھلنے کے لیے حضرت شیخ الحدیث کی آنکھ بند ہونے کی منتظر تھیں۔ والد گرامی کے طرز فکر سے اختلاف رکھنے والے حضرات کے لیے درست اخلاقی رویہ یہ ہے کہ وہ ان پر حضرت شیخ الحدیث کی وفات کے بعد ان کے منہج سے انحراف کا بے بنیاد اور حقائق کا منہ چڑانے والا الزام عائد کرنے کے بجائے حوصلے سے کام لیتے ہوئے یہ کہیں کہ حضرت شیخ الحدیث سے اپنے جانشین کا انتخاب کرنے میں سنگین غلطی بلکہ گناہ سرزد ہوا ہے جس کی اب ہم تلافی چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ بات کہیں تو اس کے لیے فمن خاف من موص جنفا او اثما فاصلح بینہم فلا اثم علیہ کی شرعی بنیاد بھی انھیں مل جائے گی، لیکن اس کے لیے جو اخلاقی جرات اور علمی دیانت درکار ہے، کیا ناقدین اس کی کوئی معمولی سی جھلک بھی دکھائیں گے؟

میری اختلافی آرا اور ان کی علمی بنیاد

 

محمد عمار خان ناصر

میری اختلافی آرا اور ان کی علمی بنیاد

راقم الحروف نے گزشتہ دس بارہ سال کے عرصے میں مختلف علمی وفکری مسائل کے ضمن میں اپنے جو طالب علمانہ نتائج فکر اہل علم کی خدمت میں نقد وتبصرہ کے لیے پیش کیے ہیں، ان میں سے بعض چونکہ روایتی طور پر معروف نقطہ نظر سے مختلف اور روایتی انداز نظر سے مسائل کو دیکھنے والے ذہن کے لیے خاصے اجنبی ہیں، اس لیے ان پر اضطراب و تشویش کا پیدا ہونا اور مختلف ذہنی سطحوں کے مطابق تنقید وتبصرہ کا عمل شروع ہو جانا بالکل فطری اور متوقع بات تھی۔ میں اپنی ہر تحریر میں اپنے نقطہ نظر کے علمی دلائل کی بھی ساتھ ہی ساتھ وضاحت کرتا رہا ہوں اور بہت سے مسائل پر سامنے آنے والی تنقید کے حوالے سے مزید توضیح وتشریح کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ یہ مباحث چونکہ سیکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اور یقیناًہر قاری ان پر براہ راست نظر بھی نہیں رکھتا، اس لیے اگر ان آرا کو علمی استدلال اور فکری بنیاد سے معرا کر کے ایک خالی الذہن قاری کے سامنے رکھا جائے، جیسا کہ بعض حالیہ تنقیدات میں کیا گیا ہے، تو اس سے ایک عمومی ذہنی توحش کا پیدا ہونا ممکن ہی نہیں، یقینی بھی ہے اور دراصل استدلال کی وضاحت کے بغیر صرف ’’احتیاط‘‘ سے منتخب کردہ جملوں کو ناواقف قاری کے سامنے پیش کرنے کے اسلوبِ تنقید کا اصل ہدف بھی یہی ہوتا ہے۔ 
اس تناظر میں، میں والد گرامی کی ہدایت پر اہم اختلافی مسائل کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر اور اس کے استدلال کے بنیادی نکات نہایت مختصر طور پر یہاں بیان کر رہا ہوں تاکہ ایک حد تک متعلقہ مسئلے کی نوعیت عام قارئین کے سامنے آ سکے۔ اگر اس تحریر میں کوئی تشنگی محسوس ہو تو وہ بالکل فطری ہوگی اور تفصیل کے طالب حضرات سے میری گزارش یہ ہوگی کہ وہ اس نکتے سے متعلق میری مفصل تحریروں کو ملاحظہ فرما لیں۔

۱۔ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ

مسجد اقصیٰ کا نام قرآن مجید نے بیت المقدس میں قائم بنی اسرائیل کی اس عبادت گاہ کے لیے استعمال کیا ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور اللہ کے حکم سے اسے بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے بیت المقدس کو فتح کرنے سے صدیوں قبل یہودیوں کو اس شہر اور عبادت گاہ سے بے دخل کیا جا چکا تھا اور ان کی جگہ اس وقت یہاں نصاریٰ قابض تھے۔ 
تاریخی روایات کے مطابق بیت المقدس کی فتح کے موقع پر سیدنا عمرؓ جب یہاں تشریف لائے تو آپ نے نومسلم یہودی عالم کعب الاحبارؒ سے دریافت کیا کہ صخرہ، جسے یہود کے قبلے کی حیثیت حاصل ہے، کس جگہ پر واقع ہے؟ کعبؒ نے پیمایش کر کے اس کی جگہ متعین کی۔ اس جگہ کو نصاریٰ نے یہودیوں کے ساتھ اظہار نفرت کے لیے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ میں تبدیل کر رکھا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے گندگی کو وہاں سے ہٹا کر صخرہ کو پاک صاف کرنے کا حکم دیا اور خود بھی اس کی صفائی میں شریک ہوئے۔ پھر آپ نے کعبؒ سے مشورہ طلب کیا کہ مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے لیے کون سی جگہ منتخب کی جائے؟ کعبؒ نے کہا کہ نماز صخرہ کے پیچھے ادا کی جائے تاکہ بنی اسرائیل اور امت محمدیہ، دونوں کے قبلوں کی تعظیم ہو جائے۔ سیدنا عمرؓ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور اس کے بجائے مسجد کے اگلے حصے میں یعنی جنوبی دیوار کے قریب ایک جگہ کو مسلمانوں کی نماز کے لیے مخصوص کر دیا۔ 
راقم الحروف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کا وہ حصہ جسے حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کی عبادت کے لیے خاص کیا، اس پر تولیت وتصرف تاریخی وشرعی طور پر مسلمانوں کا حق ہے۔ تاہم اس کے علاوہ عبادت گاہ کا وہ حصہ جہاں اصل ہیکل سلیمانی تعمیر کیا گیا تھا اور جو یہود کے قبلے کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر بنی اسرائیل کا حق اصولی طور پر حسب سابق برقرار ہے۔ شریعت اسلامیہ میں ان کے اس حق کی تنسیخ کے لیے کوئی تصریح موجود نہیں، جبکہ بطور ایک مذہب کے یہودیت کے لیے دنیا میں باقی اور قائم رہنے کا حق تسلیم کرنے کے بعد ان کے لیے اپنے قبلے پر تولیت وتصرف کا حق تسلیم نہ کرنا ایک غیر منطقی اور داخلی تضاد پر مبنی موقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے عبادت گاہ کے مرکزی حصے کو مسلمانوں کے تصرف میں لینے سے گریز کیا اور ان کی عبادت کے لیے وہاں سے ہٹ کر ایک جگہ مخصوص کی۔ بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ نے جب اصل عبادت گاہ کے حصے میں قبۃ الصخرہ تعمیر کروایا اور اسے ایک مذہبی زیارت گاہ کا درجہ دے دیا تو اس کے انتظام وانصرام میں یہودیوں کو بھی شریک کیا اور انھیں بطور مجاور یہاں خدمت انجام دینے کا موقع فراہم کیا۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر عبادت کے جنوبی حصے میں قائم مسلمانوں کی مسجد پر مسلمانوں کا حق برقرار رکھتے ہوئے اصل اور مرکزی حصے میں، جہاں حضرت عمرؓ نے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا، یہود اپنی عبادت گاہ دوبارہ تعمیر کرنا چاہیں تو اسلامی شریعت کا کوئی حکم اصولی طور پر اس میں مانع نہیں ہے۔ واللہ اعلم

۲۔ علمی وفقہی مسائل میں اجماع کی حیثیت

اجماع کے حوالے سے راقم نے جو اپنی متعدد تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
۱۔ جن معاملات میں قرآن وسنت کے نصوص ساکت ہوں یا ایک سے زیادہ تعبیرات کا احتمال رکھتے ہوں، ان میں ایک فقیہ یا مجتہد کا ’’اجتہاد‘‘ دلیل شرعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجماع چونکہ اجتہاد ہی کی ایک صورت اور اس کی فرع ہے، اس لیے اس کے فی نفسہ ایک قابل اتباع دلیل شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں جس کا درجہ بدیہی طور پر انفرادی واختلافی اجتہاد سے برتر ہے۔ 
۲۔ قرآن یا سنت کے نصوص، دلائل شرعیہ میں بنیادی اور اساسی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں، جبکہ اجتہاد اور اجماع ان نصوص پر متفرع ہونے کی وجہ سے ثانوی دلیل کا۔ اس وجہ سے اجماع کی قوت یا ضعف اور قطعی یا ظنی ہونے کا تعین اس شرعی دلیل کی نوعیت کے لحاظ سے ہوگا جس پر وہ مبنی ہے۔ اگر اجماع کی اساس بننے والے شرعی دلائل قطعی اور یقینی ہیں تو اجماع کا درجہ بھی یہی ہوگا اور اگر دلائل ظنی و استنباطی ہیں تو اجماع بھی اسی درجے کی دلیل ہوگا۔
۳۔ اگر شرعی نصوص فی نفسہ ایک سے زیادہ تعبیرات کا احتمال رکھتی ہوں اور ان میں سے کسی ایک تعبیر پر کسی دور کے فقہا اتفاق کر لیں تو کیا وہ مسئلہ قطعی طور پر منصوص حکم کی حیثیت حاصل کر لے گا جس سے کوئی فقیہ متبادل اجتہاد واستنباط کی بنیاد پر اختلاف نہیں کر سکتا؟ اس ضمن میں اکابر فقہاء ومجتہدین اور محقق علمائے اصول کے طرز عمل سے یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ ایسے اتفاق کو ایک ظنی درجے ہی کی دلیل سمجھتے ہیں جس سے دلیل کی بنیاد پر انفراداً بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ایک دور کے اہل علم کے متفقہ نقطہ نظر کے برعکس بعد کے ادوار کے اہل علم اجتماعی طور پر بھی کوئی مختلف نقطہ نظر اختیار کر سکتے ہیں۔ امت کی فقہی واجتہادی تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں اور نظائر موجود ہیں۔
۴۔ کسی بھی مسئلے میں اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے اور اس کی بنیاد پر متبادل امکانی تعبیرات کو قطعاً خارج از بحث قرار دیتے ہوئے اجماع کے عملی تحقق کے پہلو سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ علمی وفقہی مسائل میں اجماع سکوتی ہی ممکن ہے، کیونکہ کسی بھی دور میں پورے عالم اسلام کے تمام علماء وفقہا کی آرا کو معلوم کرنا اور یہ یقین حاصل کرنا کہ کوئی بھی فقیہ معروف رائے سے مختلف سوچ نہیں رکھتا، قطعی ناممکن ہے۔ اس لیے اجماع سکوتی کو ظاہری او رمجازی طور پر ہی اجماع کہنا درست ہے، حقیقی معنوں میں اس پر اجماع کا اطلاق لگانا مشکل ہے۔

۳۔ رجم کی شرعی حیثیت

رجم کی سزا کی شرعی حیثیت کے ضمن میں میری معروضات کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ زنا کے مجرموں کو سنگسار کیا جانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ثابت ہے اور اسے شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں خوارج کا، قرآن میں رجم کی سزا مذکور نہ ہونے کی بنا پر اس کا سرے سے انکار کر دینے کا موقف غلط اور ناقابل قبول ہے۔
۲۔ قرآن میں زانی کے لیے صرف سو کوڑے کی سزا ذکر کی گئی ہے، جبکہ سنت سے اس پر رجم کی سزا کا اضافہ ثابت ہے۔ ان دونوں بظاہر متعارض حکموں کے مابین تطبیق وتوفیق یا علمی وفقہی درجہ بندی کے لیے چودہ صدیوں میں مختلف علمی توجیہات پیش کی گئی ہیں جن میں سے زمانی لحاظ سے آخری توجیہ مولانا اصلاحیؒ اور بعض دیگر معاصر اہل علم نے پیش کی ہے۔ ان کی رائے کی مطابق رجم کی سزا، اصلاً زنا کی نہیں، بلکہ فساد فی الارض او رمحاربہ کی سزا ہے اور اسے زنا کے عادی مجرموں یا اوباشوں پر نافذ کیا جانا چاہیے، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ 
۳۔ راقم کے طالب علمانہ مطالعے کے مطابق قرآن کے ظاہری حکم اور سنت کے بیان کردہ اضافے کے مابین تطبیق کے ضمن میں پیش کی جانے والی کوئی بھی توجیہ علمی اشکالات سے خالی نہیں۔ اس لیے علمی ونظری طور پر اس مسئلے میں اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا کو اصل اور حقیقی سزا قرار دیتے ہوئے رجم کو اضافی اور صواب دیدی سزا قرار دیا جائے اور، اس کے برعکس، اس نقطہ نظر کی بھی کہ قرآن کے ظاہری بیان کو قطعی اور فیصلہ کن نہ سمجھتے ہوئے سنت کو شرعی حکم کا مکمل بیان تسلیم کیا جائے۔ 
۴۔ جہاں تک کسی اسلامی ریاست میں عملی قانون سازی کا تعلق ہے تو اس کے متعلق میرا اصولی موقف یہ ہے کہ وہ اسی رائے پر مبنی ہونی چاہیے جسے جمہور اہل علم کا اعتماد حاصل ہو تا آنکہ کوئی بھی نئی رائے بحث ومباحثہ کے بعد عمومی تائید حاصل کر لے۔ ۲۰۰۷ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ:
’’جہاں تک نظری اور علمی سطح پر بحث وتحقیق کا تعلق ہے تو اسے نہ آئینی طور پر آرا اور تعبیرات کے کسی مخصوص دائرے میں محصور کیا گیا ہے اور نہ علمی وعقلی طور پر ہی اس قسم کی کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ ۔۔۔ البتہ کسی بھی رائے کو عملاً قانون سازی کی بنیاد بنانے کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وسیع تر اور ہمہ جہتی بحث ومباحثہ کے ذریعے سے اس رائے کے استدلال اور افادیت پر قوم کے نمائندہ طبقات کو اعتماد میں لینے کا اہتمام کیا جائے، ورنہ کسی ایسی متنازعہ تعبیر کو جسے علمی وفکری اور قانونی حلقوں، بلکہ خود رائے عامہ کا اعتماد حاصل نہ ہو، قانون سازی کی بنیاد بنانے سے نہ صرف یہ کہ قانون اپنی اخلاقی قوت سے محروم ہو جائے گا، بلکہ یہ طریقہ عمومی طور پر بھی مزید الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔‘‘ (’’حدود وتعزیرات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ‘‘، ص ۱۲، ۱۳)

۴۔ ارتداد کی سزا 

ارتداد کی سزا سے متعلق میری مختلف تحریروں کا حاصل یہ ہے کہ:
۱۔ ارتداد کی سزا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے دی ہے اور بغاوت یا محاربہ کی اساس پر نہیں، جیسا کہ بعض معاصر اہل علم کا نقطہ نظر ہے، بلکہ نفس ارتداد پر دی ہے۔
۲۔ اس سزا کی شرعی اساس ’اتمام حجت‘ کا اصول ہے، یعنی حق واضح ہو جانے کے بعد اس کا انکار کرنا، جیسا کہ امام شافعیؒ کا موقف ہے۔
۳۔ ’اتمام حجت‘ کی کیفیت اور درجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ بعثت اور بعد کے ادوار میں فرق واقع ہونا بدیہی ہے، چنانچہ اس اساس پر مبنی فقہی احکام کے عملی اطلاق میں بھی دور اور زمانے کے بدل جانے سے فرق کا واقع ہونا فقہی اصول کے مطابق ہے۔ 
۴۔ سیدنا عمرؓ سے منقول ہے کہ انھوں نے بعض مرتدین پر سزائے موت نافذ کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا، جبکہ تابعین میں سے امام ابراہیم نخعیؒ کا موقف یہ ہے کہ مرتد کو قتل کرنے کے بجائے عمر قید کی سزا دی جائے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خود صدر اول میں بعض اکابر مجتہدین اس حکم کی نوعیت اور اس کے عملی اطلاق کے حوالے سے عمومی نقطہ نظر سے مختلف رجحان رکھتے تھے۔
۵۔ دور جدید میں بعض اہل علم نے اس مسئلے کو اس پہلو سے بھی دیکھا ہے کہ آج اگر مسلم ممالک میں اسلام سے کھلے ارتداد پر، جس کا تناسب بہت کم ہے، قانونی سزا نافذ کر دی جائے اور اس کے نتیجے میں غیر مسلم ممالک میں اسلام کی دعوت کے راستے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی ہونے لگیں تو یہ شرعی مصالح کے خلاف ہوگا۔
۶۔ اس تناظر میں اگر دور جدید میں مسلم ریاستوں میں علی العموم ارتداد کی سزا کے نفاذ سے گریز کیا گیا ہے تو فقہی طور پر یہ فیصلہ درست اور زیادہ قرین حکمت ہے۔ چنانچہ قادیانیوں کے بارے میں جمہور علماء کا موقف اسی کی غمازی کرتا ہے ، جبکہ پاکستان کے علماء کا منکرین حدیث کو خارج از اسلام قرار دینے کے بعد ان کے بارے میں ارتداد کی سزا کے نفاذ کا مطالبہ نہ کرنا بھی اسی حکمت ومصلحت کی وجہ سے ہے۔

۵۔ اقدامی جہاد کا انکار؟

انیسویں صدی میں برصغیر میں جہاد کے حوالے سے جس مذہبی بحث ومباحثہ کا آغاز ہوا، اس نے بعض وجوہ سے یہ عنوان اختیار کر لیا کہ اسلام میں جہاد آیا صرف دفاع کے لیے مشروع ہے یا اس سے ہٹ کر اقدامی نوعیت کا جہاد بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں آج بھی جہاد کے حوالے سے کسی بھی بحث کو اسی نکتے کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے، حالانکہ علمی طور پر اس بحث کے کئی دوسرے زاویے بھی ہو سکتے ہیں۔ راقم الحروف نے عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کی نوعیت کے حوالے سے اپنے جو تفصیلی نتائج تحقیق ’’جہاد: ایک مطالعہ‘‘ میں پیش کیے ہیں، انھیں بھی بعض ناقدین نے دفاعی اور اقدامی جہاد کے تصور کے تحت اور اس بحث کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ مذکورہ تحریر میں بنیادی طور پر اس زاویے سے مسئلے پر گفتگو ہی نہیں کی گئی۔ میرے نزدیک یہ سوال بے معنی ہے کہ جہاد دفاعی ہوتا ہے یا اقدامی۔ یہ دفاعی بھی ہو سکتا ہے اور اقدامی بھی۔ اصل سوال یہ ہے کہ جہاد کی شرعی وجہ جواز کون سے امور بن سکتے ہیں اور بین الاقوامی نظام میں مسلمان ریاستوں کے غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی شرعی وفقہی اساس کیا ہے۔ 
مذکورہ بحث میں راقم الحروف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ عہد نبوی وعہد صحابہ میں غیر مسلم حکومتوں کے خلاف قتال ایک مخصوص شرعی اساس یعنی اتمام حجت کے قانون پر مبنی تھا جو شریعت کا عمومی قانون نہیں، بلکہ اس کا ظہور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانی تاریخ کے بعض ایسے مراحل پر کیا جاتا ہے جب خدائی فیصلے کے تحت کسی قوم کو اس کے کفر وشرک اور اجتماعی بد اعمالیوں کی سزا دینا مقصود ہو۔ اس مقصد کے لیے تکوینی اسباب کے تحت بھی کسی قوم کو دوسری قوم پر غلبہ اور حکومت عطا کر دی جاتی ہے اور بسا اوقات اہل ایمان کے کسی گروہ کو بھی یہ اذن اور اختیار دے دیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے اس فیصلے کی تنفیذ کے لیے آلہ وجارحہ بن کر اہل کفر پر حملہ آور ہوں اور انھیں حکومت واقتدار سے محروم کر کے اپنا محکوم بنا لیں۔
اس بحث کا نتیجہ فقہا کے اس روایتی موقف سے اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلم حکومتوں کے ساتھ مسلمانوں کا اصل تعلق، جنگ کا ہے اور یہ کہ اگر مسلمانوں کے پاس طاقت موجود ہو اور کوئی عارضی مصلحت مانع نہ ہو تو اصل حکم یہی ہے کہ غیر مسلم ممالک کو فتح کر کے وہاں کے باشندوں کو محکوم بنا لیا جائے اور ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ دور جدید میں عالم اسلام کے بیشتر فقہا ومحققین اس روایتی فقہی موقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان میں اکابر علمائے دیوبند مثلاً مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا مفتی ظفیر الدین عثمانی اور مولانا تقی عثمانی وغیرہ بھی شامل ہیں جو پرامن اور صلح پسند غیر مسلم اقوام وممالک کے ساتھ مستقل بنیادوں پر مصالحانہ تعلقات کے جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح دور جدید کے بیشتر علما وفقہا اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر جزیہ وغیرہ کے نفاذ پر اصرار نہیں کرتے اور خاص طور پر پاکستان کے دستور میں تو غیر مسلموں کو چند ایک کلیدی عہدوں کے استثنا کے ساتھ ریاستی نظم میں ہر سطح پر مسلمانوں کے ساتھ شریک کیا گیا اور انھیں مساوی حقوق کا حامل شہری تسلیم کیا گیا ہے اور اسے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی تائید حاصل ہے۔

۶۔ عورت کی دیت 

دیت کی مقدار سے متعلق میں نے مختلف تحریروں میں جو بحث کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مستند روایت میں مرد وعورت کی دیت میں فرق بیان کرنا ثابت نہیں۔
۲۔ قرآن مجید نے دیت کے معاملے میں ’معروف‘ کی پیروی کا حکم دیا ہے جس سے مراد ہر معاشرے کا اپنا معروف ہے۔
۳۔ صحابہ کرامؒ نے اپنے دور کے عرف کے مطابق مرد وعورت کی دیت میں فرق کیا جو قرآن کی ہدایت کے مطابق درست تھا، تاہم اس عرف کی پیروی ہر دور اور ہر معاشرے میں ازروئے شریعت لازم نہیں۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں مختلف معاشرے مختلف قانون سازی کر سکتے ہیں۔
۴۔ عورت کی دیت کے نصف ہونے کا موقف فقہا کا اجماعی موقف بھی نہیں، کیونکہ صدر اول کے دو معروف اصحاب علم ابوبکر الاصمؒ اور ابن علیہؒ اس کے قائل نہیں اور فقہ حنبلی کی مستند کتاب ’کشاف القناع‘ میں اسی بنیاد پر اس مسئلے پر اجماع کے دعوے کی تردید کی گئی ہے۔ اسی طرح امام رازیؒ نے اپنی تفسیر میں مذکورہ نقطہ نظر کو جس اسلوب میں بیان کیا ہے، اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کے حق میں رجحان رکھتے یا کم از کم اسے قابل غور ضرور سمجھتے ہیں۔ 
۵۔ پاکستان میں بھی قصاص ودیت کا جو قانون نافذ کیا گیا ہے، اس میں مرد وعورت کی دیت میں فرق نہیں کیا گیا، جبکہ یہ قانون تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کی مشاورت کے بعد نافذ کیا گیا ہے اور اسے مذہبی جماعتوں کی عمومی تائید بھی حاصل ہے۔

۷۔ لعان اور تحقیق نسب کے جدید سائنسی ذرائع

اگر شوہر اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے تو شریعت نے اسے چار گواہ پیش کرنے کا پابند نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شرط پوری کرنا عادتاً ممکن نہیں، جبکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ اپنے الزام میں سچا ہو۔ ایسی صورت میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے کو عورت کے شوہر کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کے مقابلے میں محض شوہر کے دعوے پر الزام کو درست بھی نہیں مانا جا سکتا، کیونکہ الزام کے جھوٹا ہونے کا امکان بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ ایسی صورت میں میاں بیوی باہم لعان کرنے کے بعد جدا ہو جائیں تاکہ دنیوی معاملات کی حد تک دونوں فریق سزا سے (یعنی شوہر قذف کی سزا سے جبکہ بیوی زنا کی سزا سے) بری ہو جائیں۔ 
لعان کا دوسرا قانونی اثر یہ مرتب ہوگا کہ عورت جس بچے کو جنم دے گی، اس کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہیں مانا جائے گا۔ اس آخری نکتے کے حوالے سے دور جدید میں یہ اجتہادی بحث پیدا ہو گئی ہے کہ اگر جدید طبی ذرائع کی مدد سے بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو اور عورت یہ مطالبہ کرے کہ اس پر زنا کا الزام جھوٹا ہے، اس لیے سائنسی ذرائع سے تحقیق کرنے کے بعد اگر ثابت ہو جائے کہ بچہ اس کے شوہر ہی کا ہے تو بچے کے نسب کو اس سے ثابت قرار دینا درست ہوگا؟
میرا طالب علمانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ عورت کا یہ مطالبہ درست اور اس کو وزن دینا مقاصد شریعت کے عین مطابق ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے لعان کے بعد بچے کے نسب کو شوہر سے منقطع کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے، اس کا مقصد بدیہی طور پر یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو تو بھی عورت کو اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزام کی صفائی کا موقع نہ دیا جائے اور بچے کو اپنے نسب کے ثبوت کے حق سے محروم رکھا جائے۔ دور قدیم میں چونکہ تحقیق نسب کا کوئی قابل اعتماد ذریعہ میسر نہیں تھا، اس لیے شریعت نے اتنا ہی حکم دینے پر اکتفا کی جو نصوص میں بیان ہوا ہے۔ تاہم اگر آج ایسا کوئی قابل اعتماد ذریعہ موجود ہو تو عورت اور بچے، دونوں کے حق کے تحفظ کے لیے اس سے مددلینا شریعت کے مقصد اور منشا کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے عین مطابق ہوگا۔ اس کی عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زنا کے الزام کی صورت میں میاں بیوی کے مابین لعان کروانے کے بعد دونوں کو جدا کر دیا جائے اور پیدا ہونے والے بچے کا نسب شوہر سے منقطع کر دیا جائے۔ اگر بیوی الزام کا انکار کرتے ہوئے سائنسی ذرائع کی مدد سے نسب کی تحقیق کا مطالبہ کرے اور طبی تحقیق سے اس کا دعویٰ درست ثابت ہو جائے تو بچے کے نسب کو اس کے باپ سے ثابت تسلیم کیا جائے۔ اس صورت میں لعان کا فقہی اثر اور فائدہ یہ ہوگا کہ شوہر پر قذف کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

۸۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی 

سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق میرا نقطہ نظر، سابقہ تحریر (براہین، ص ۷۹۰، ۷۱۰) میں بعض توضیحی اضافوں کے ساتھ حسب ذیل ہے:
۱۔ کتب حدیث میں متعدد روایات میں قیامت کے قریبی زمانے میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے اور دجال کو قتل کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ محدثین کے معیار کے مطابق یہ روایات مستند اور قابل اعتماد ہیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بہت سی پیش گوئیوں کی طرح، اس پیش گوئی کے سچا ہونے پر بھی یقین رکھنا آپ پر ایمان کا تقاضا ہے۔ 
۲۔ اس پیش گوئی سے متعلق علمی طور پر بعض اشکالات یقیناًپیش آتے ہیں، مثلاً قرآن مجید کا اس اہم واقعے کی صراحت سے صرف نظر کرنا اور متعلقہ احادیث میں بیان ہونے والے بعض امور کا بظاہر تاریخی واقعات کے مطابق نہ ہونا۔ تاہم چونکہ باعتبار سند یہ روایات قابل اعتماد ہیں اور ان میں وضع کے آثار نہیں پائے جاتے، اس لیے اشکالات کو اشکالات ہی کے درجے میں رکھنا زیادہ قرین احتیاط ہے۔ ان کی بنیاد پر پیش گوئی کا مطلقاً انکار کر دینا درست نہیں، خاص طور پر جبکہ روایات سے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ بالمعنی نقل ہوئی ہیں اور کسی بھی واقعے سے متعلق تفصیلات کے نقل کرنے میں راویوں کا سوءِ فہم کا شکار ہو جانا ذخیرۂ حدیث میں ایک جانی پہچانی چیز ہے۔
۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ ایک پیش گوئی کے طور پر سیدنا مسیح علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری پر اعتقاد رکھتے ہوئے، یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے یہ ’عقیدے‘ کا مسئلہ نہیں، یعنی کوئی ایسی بات نہیں جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمانیات کے ایک جزو کے طور پر بیان کیا ہو۔ ایمانیات کے معروف اور مسلمہ اجزا کے ساتھ موازنے سے اس مسئلے کی یہی نوعیت واضح ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ کی صفات، تقدیر، رسالت، ختم نبوت، قیامت وغیرہ، ان تمام عقائد پر اسلام کے اعتقادی وعملی نظام کی بنیاد ہے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنی جگہ سے ہٹانے سے یہ پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلاف احادیث میں بیان ہونے والے مستقبل کے واقعات میں سے کسی واقعے کے رونما ہونے یا نہ ہونے پر اسلام کے دینیاتی نظام کا ہرگز مدار نہیں اور بالفرض ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہ ہونا ہو تو بھی اسلام کے اعتقادی نظام میں کسی طرح کا کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ 
۴۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی روایات محققین کے نزدیک اپنی اصل کے لحاظ سے اخبار آحاد ہیں اور اس دائرے میں آتی ہیں جہاں روایات کی تحقیق وتفتیش کے ضمن میں باہم مخالف قرائن کی روشنی میں اشتباہ کا لاحق ہو جانا ممکن ہے۔ بعض صحابہ کے آثار سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے کسی قطعی الثبوت اور متواتر روایت کے طور پر نہیں جانتے تھے۔ اس وجہ سے کوئی صاحب علم اگر ان روایات کے استناد سے اختلاف کریں تو یہ ایک علمی نوعیت کا اختلاف ہوگا جس پر دلائل کی روشنی میں شائستگی سے ہی تنقید کرنی چاہیے اور اس مسئلے کو ایمانیات کے بجائے احادیث کے حوالے سے بحث وتحقیق کے درجے میں ہی رکھنا چاہیے۔

۹۔ عورت کے لیے حق طلاق 

عورت کے لیے مرد کے مساوی او رمطلق حق طلاق کی بات میرے نزدیک شرعی ترجیحات کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حق مرد کو وللرجال علیہن درجۃ کی تصریح کے ساتھ دیا ہے۔ اس تناظر میں، راقم نے لکھا ہے کہ:
’’اگر آپ مطلق طور پر عورت کو حق طلاق دے دیں تو جو سوئے استعمال آپ مرد کی طر ف روکنا چاہتے ہیں، اس کا امکان عورت کی طرف بھی ہے۔ اگر خاتون کو آپ علی الاطلاق، بالکل absolute right دے دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے، مرد سے الگ ہو جائے تو رشتہ نکاح کی وہ اصل ہیئت بھی قائم نہیں رہے گی جو اللہ نے قائم کی ہے اور غلط استعمال کی مثالیں بھی خواتین کی طرف سے زیادہ سامنے آئیں گی۔‘‘ (براہین، ص ۸۲)
البتہ عملی مشکلات ومسائل کے تناظر میں خواتین کو بعض شرائط کے ساتھ محدود دائرے میں شوہر کے ساتھ حق طلاق میں شریک کرنے کی گنجائش فقہا کے ہاں ہمیشہ تسلیم کی گئی ہے۔ اس ضمن میں،میں نے عرض کیا ہے کہ:
’’لڑکی نکاح کے وقت طلاق کا حق مانگ سکتی ہے، لیکن عام حالات میں یہ خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے کہ وہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ قانون اس کو پابند نہیں کرتا۔ لڑکی مطالبہ کرے تو شوہر کہہ سکتا ہے کہ میں یہ حق نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو ریاست قانون کا اختیار استعمال کرتے ہوئے خاوند کو پابند کر سکتی ہے۔ قانون اس کا پورا اختیار رکھتا ہے کہ کسی بھی فردکے حق کو restrict کر دے یا کسی بھی فرد کو ایسا حق جو عام طو رپر اس کو حاصل نہیں ہوتا، مخصوص صورت حال میں وہ حق اس کو دے دے۔ تو اگر آپ ایک قانونی پابندی لگا دیں کہ ہر نکاح کے موقع پر خاوند اپنا حق طلاق ان ان شرائط کے ساتھ بیوی کو دے دے تو میرے نزدیک فقہی طور پر اس کی گنجائش موجود ہے۔ ۔۔۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر یہ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ بیوی اگر کسی موقع پر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے طلاق چاہیے اور بیوی کا باپ یا سرپرست یا خاندان کا کوئی دوسرا ذمہ دار آدمی اس مطالبے کی توثیق کر دے کہ ہاں اس کا مطالبہ بجا ہے تو پھر خاوند پابند ہوگا۔‘‘ (براہین، ص ۸۲، ۸۳)
’’بعض صورتوں میں عورت بالکل جائز بنیادوں پر طلاق لینے کی خواہش مند ہوتی ہے، لیکن خاوند اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، جبکہ عورت کسی جائز وجہ سے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہو تو یہ اس کا حق ہے اور خاوند شرعاً اس کے اس مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ۔۔۔معاصر تناظر میں اس الجھن کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ نکاح کے وقت طلاق کے حق کو مناسب شرائط کے ساتھ کسی ثالث یا خود عورت کو تفویض کر دینے کو قانونی طو رپر لازم کر دیا جائے یا یہ قرار دیا جائے کہ اگر عورت خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو ایک مخصوص مدت کے اندر شوہر بیوی کو مطمئن کرنے یا اسے طلاق دینے کا پابند ہوگا، ورنہ طلاق ازخود واقع ہو جائے گی۔ ‘‘ (براہین، ص ۴۹، ۵۰)

۱۰۔ قادیانیوں سے متعلق حکمت عملی 

قادیانیوں سے متعلق راقم الحروف کا رجحان کچھ عرصہ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے موقف کی طرف رہا ہے جو انھیں تاویل کا فائدہ دیتے ہوئے ان کی تکفیر نہ کیے جانے کے قائل تھے۔ تاہم بعد میں غور سے واضح ہوا کہ جمہور علما کا موقف شرعی وعملی مصالح کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے۔ اس ضمن میں میری وضاحتی تحریر الشریعہ کے مئی ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے۔ البتہ قادیانیوں کے ساتھ بطور ایک طبقے سماجی تعلقات منقطع کر دینے کی حکمت عملی سے مجھے اختلاف ہے۔ راہ حق سے بھٹک جانے والے ایک گروہ کو حق کی تبلیغ کی جو ذمہ داری امت پر عائد ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے یہ حکمت عملی اصولاً بھی درست نہیں اور عملاً بھی اس کے نتیجے میں قادیانی مائل بہ اصلاح نہیں ہوئے، بلکہ قادیانی قیادت کو اپنے متبعین کو کفر اور گمراہی کے دائرے میں محصور رکھنے میں مدد ہی ملی ہے۔ چنانچہ اس حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہوئے میں نے محولہ بالا تحریر میں لکھا ہے کہ:
’’میرے نزدیک قادیانیوں کو من حیث المجموع قانونی اعتبار سے کافر قرار دینے کا فیصلہ تو بالکل درست اور دینی وشرعی مصالح کے مطابق ہے، تاہم یہ نکتہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ عام مسلمانوں میں سے جو لوگ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے قادیانی تاویلات کے فریب کا شکار ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ نفرت و مخاصمت اور سماجی مقاطعہ کا رویہ درست نہیں، بلکہ وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ایک داعیا نہ ہمدردی کے ساتھ انھیں مسلمانوں کے قریب تر کرنے اور ان کے لیے اسلام کے صحیح عقائد سے متعارف ہونے کے مواقع پیدا کیے جائیں، اس لیے کہ دعوت دین کا کام لوگوں کو حق اور اہل حق سے دور رکھنے کا نہیں، بلکہ راہ حق سے بھٹک جانے والے لوگوں تک پہنچ کر انھیں حق کے قریب لانے کی جدوجہد کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘ (مئی ۲۱۰۲ء، ص ۲۴، ۲۵)

۱۱۔ صحابہ کرامؓ پر طعن وتشنیع کا الزام

صحابہ کرامؓ پر طعن وتشنیع ایمان کے منافی ہے اور کوئی مسلمان ارادتاً اور دیدہ ودانستہ ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میرے جس اقتباس کو صریح بددیانتی سے کام لیتے ہوئے اور میری طرف سے وضاحت کے باوجود مسلسل صحابہؓ پر طعن کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل عہد نبوی کے منافقین سے متعلق ہے اور اس میں بھی طعن وتشنیع کے پہلو سے نہیں، بلکہ قرآن مجید کی ایک آیت کا مصداق متعین کرنے کے ضمن میں بعض ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے جو بدکاری کو بطورِ عادت اختیار کیے ہوئے تھے۔ متعلقہ اقتباس (براہین، ص ۱۶۰ تا ۱۶۲) حسب ذیل ہے:
’’سورۂ نساء کی آیات ۱۵، ۱۶ میں ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ اور ’والذان یاتیانہا‘ کا مصداق کون سے زانی ہیں اور پہلی آیت میں خواتین کو الگ ذکر کر کے ان کی سزا الگ بیان کرنے کی وجہ کیا ہے؟۔۔۔ ہم نے آیات کے داخلی قرائن کی روشنی میں اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ یہاں زنا کا اتفاقیہ ارتکاب کرنے والے عام مجرم نہیں، بلکہ اس کو پیشہ اور عادت کے طو رپر اختیار کر لینے والے مجرم زیر بحث ہیں اور قرآن نے پہلی آیت میں پیشہ ور بدکار عورتوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کی تدبیر بیان کی جبکہ دوسری آیت میں یاری آشنائی کا مستقل تعلق قائم کر لینے والے جوڑوں کی تادیب وتنبیہ کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ ۔۔۔
مولانا محترم نے ہماری اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے ۔۔۔یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اس توجیہ کو ماننے کی صورت میں یہ تصور کرنا پڑے گا کہ ’’ایک انتہائی صالح مسلمان معاشرہ میں جس کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہوں، اس میں ایسے مسلمان افراد بھی ہوں جو بدکاری کے اڈے چلا رہے ہوں یا جن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کر چکا ہو۔‘‘ مولانا کا فرمانا ہے کہ ’’کوئی بھی باغیرت مسلمان اس تصور کو اپنے دل ودماغ میں جگہ نہیں دے سکتا۔‘‘ (مقام عبرت، ص ۳۰)
تاہم مولانا محترم نے یہ سامنے کی بات نظر انداز کر دی ہے کہ عہد نبوی کے معاشرے نے اخلاقی تزکیہ وتطہیر کے سارے مراحل ایک ہی جست میں طے نہیں کر لیے تھے، اور اس معاشرے میں آپ کے تربیت یافتہ اور بلند کردار صحابہ کے علاوہ منافقین اور تربیت سے محروم کمزور مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو مختلف اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی اور ان کی اصلاح وتطہیر کا عمل، جتنا بھی ممکن تھا، ایک تدریج ہی کے ساتھ ممکن تھا۔ اس طرح کے گروہوں میں نہ صرف پیشہ ورانہ بدکاری اور یاری آشنائی کے تعلقات کی مثالیں پائی جاتی تھیں بلکہ اپنی مملوکہ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کر کے ان کے ذریعے سے کسب معاش کا سلسلہ بھی جاری وساری تھا، چنانچہ قرآن مجید کو اس تناظر میں اس بات کی باقاعدہ وضاحت کرنا پڑی کہ جن لونڈیوں کو اپنی مرضی کے خلاف مجبوراً اس دھندے میں ملوث ہونا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گا۔‘‘ 

۱۲۔ توہین رسالت کے قانون پر اعتراض

چند سال قبل پاکستان میں توہین رسالت کی سزا سے متعلق نافذ قانون کے حوالے سے بحث اخبارات وجرائد میں چھڑی تو راقم الحروف نے بھی ایک مفصل مقالے میں، جو اب ’’براہین‘‘ میں شامل ہے، اس مسئلے کے مختلف پہلووں سے متعلق اپنا نقطہ نظر واضح کیااور مروجہ قانون میں بعض اصلاح طلب امور کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی۔ بحث کے خلاصے کے طور پر میں نے ’’براہین‘‘ (ص ۵۹۵، ۵۹۶) میں لکھا ہے کہ:
’’توہین رسالت سے متعلق حالیہ قانون چند بنیادی اور اہم پہلووں سے نظر ثانی کا محتاج ہے، اس لیے جید اور ذمہ دار علما کی راہ نمائی میں مذہبی جماعتیں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ترمیم شدہ اور جامع مسودۂ قانون پارلیمنٹ میں کریں:
الف۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شہریت کے لیے اسلام اور پیغمبر اسلام کے احترام کو بنیادی شرط قرار دیا جائے اور کوئی بھی شخص جو اپنے قول وفعل سے اس شرط کی دانستہ خلاف ورزی کرے، اس کے حقوق شہریت منسوخ کر دیے جائیں۔
ب۔ توہین رسالت کا جرم کسی ایک فرد کے خلاف نہیں، بلکہ پورے مسلمان معاشرے اور ریاست کے خلاف جرم ہے، اس لیے اس میں قانونی طور پر مدعی بھی کسی فرد کو نہیں، بلکہ ریاست کو ہونا چاہیے، جبکہ عام لوگوں کا کردار ایسے کسی بھی معاملے کو محض قانون کے نوٹس میں لانے تک محدود ہونا چاہیے۔
ج۔ مجرم سے پہلی مرتبہ جرم سرزد ہوا ہو تو اسے توبہ، معذرت اور معافی کا موقع دیا جائے، البتہ جرم کے مکرر ارتکاب کی صورت میں قرائن وشواہد سے یہ واضح ہو جائے کہ مجرم صرف دفع الوقتی کے لیے معذرت کا سہارا لے رہا ہے جبکہ حقیقی طو رپر اپنے رویے کی اصلاح پر آمادہ نہیں تو اس کی توبہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے۔
د۔ جرم کی نوعیت اور اثرات کے لحاظ سے سزائے موت کے ساتھ ساتھ متبادل اور کم تر سزاؤں کی گنجائش بھی قانون میں شامل کی جائے، جبکہ موت کی سزا کو اس جرم کی انتہائی سزا قرار دیتے ہوئے اسی صورت میں نافذ کیا جائے جب جرم کے سد باب اور اس کے اثرات کا ازالہ کرنے کے لیے یہی سزا ناگزیر ہو۔
ہ۔ اگر توہین رسالت کا الزام جھوٹا ثابت ہو تو الزام لگانے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ شخصی اور گروہی وطبقاتی نزاعات میں اس الزام کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔‘‘ 
شق ’’ج‘‘ او ر ’’د‘‘ میں توہین رسالت کے مجرم کو توبہ کا موقع دیے جانے اور موت سے کم تر تعزیری سزاؤں کی گنجائش کا جو موقف پیش کیا گیا ہے، وہ طبع زاد نہیں بلکہ احادیث، آثار صحابہ اور فقہائے احناف میں سے بالخصوص امام ابویوسفؒ ، امام طحاویؒ اور علامہ شامیؒ کی تصریحات پر مبنی ہے اور بہت سے معاصر اہل علم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ اس ضمن میں تفصیلی حوالہ جات ’’براہین‘‘ میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

۱۳۔ افغان طالبان کے دفاعی جہاد کی حیثیت

الشریعہ کے اکتوبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں افغانستان پر امریکی حملے کے پس منظر، جواز اور اس کے خلاف طالبان کی مزاحمت کی شرعی حیثیت کے موضوع پر مختلف اہل قلم کے مابین ہونے والی ایک تفصیلی بحث شائع ہوئی تھی۔ میں نے اس بحث میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ کیا طالبان کا القاعدہ کی قیادت کو، ان کے عالمی منصوبوں سے واقف ہونے کے باوجود، افغانستان میں ٹھکانہ مہیا کیے رکھنا اور پھر نائن الیون کے بعد براہ راست معلومات کی روشنی میں ان کے خلاف عدالتی تحقیق کے بجائے مخالفین سے ثبوت کا مطالبہ کرنا، شرعی واخلاقی طور پر کس حد تک درست تھا اور کیا اس پوری صورت حال میں ان کے طرز عمل کو سیاست وجہاد سے متعلق شریعت کے اعلیٰ اخلاقی تصورات کے مطابق کہا جا سکتا ہے؟ اس ساری بحث کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنے طرز عمل کی خامیوں اور کمزوریوں کا داخلی طور پر بھی احتساب کرنا چاہیے اور کھلے بحث ومباحثہ کی مدد سے ایسے کمزور پہلووں کی نشان دہی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ان کے اعادہ سے اجتناب کیا جا سکے۔ بعض حضرات نے اس کو یہ مفہوم پہنایا ہے کہ میں نے امریکی حملے کے خلاف طالبان کے حق دفاع کا ہی انکار کر دیا ہے، حالانکہ مذکورہ بحث میں ہی پوری صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ طالبان کی دفاعی جنگ بالکل جائز اور مشروع ہے اور یہ کہ دشمن اگر کھلی جارحیت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے تو بعض عملی کوتاہیوں یا غلط فیصلوں کی بنیاد پر مسلمانوں کے حق مزاحمت ودفاع ہی کی نفی کر دینا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں۔ متعلقہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’’گیارہ ستمبر کے حملوں کے جواب میں طاقت کے بے محابا اور غیر ضروری استعمال سے ]افغانستان کے[ پوری ریاستی نظم کو تباہ کر دینے کا کوئی جواز نہیں تھا اور دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے متبادل اور زیادہ حکیمانہ طریقے اختیار کیا جا سکتے تھے۔ چنانچہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر طالبان یقیناًاس کا حق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ اپنی حکومت اور اقتدار کا دفاع کریں اور اسے بچانے یا بحال کرنے کے لیے حملہ آور طاقتوں کے خلاف جنگ کریں۔‘‘ (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۰ء ، ص ۱۶)
’’افغانستان پر حملے کے متعلق میرا کہنا یہ ہے کہ امریکہ القاعدہ کے ملوث ہونے کا قانونی ثبوت فراہم کر دیتا تو بھی یہ حملہ جائز نہیں تھا۔ بین الاقوامی قانون میں اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ تجویز کیا گیا ہے جس کی امریکہ نے خلاف ورزی کی۔‘‘ (ص ۲۸)
’’القاعدہ کے، حملوں میں ملوث ہونے کے اثبات سے مقصود امریکی حملے کو جواز فراہم کرنا نہیں۔ قانونی طور پر طالبان کا ثبوت مانگنا بالکل درست تھا اور یہ بھی ان کا حق تھا کہ وہ ثبوت نہ دیے جانے پر بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کریں۔ فرض کریں، امریکہ ثبوت دے دیتا اور طالبان اسامہ کو حوالے نہ کرتے، تب بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘‘ (ص ۳۱)

۱۴۔ القاعدہ کی قیادت پر تنقید

راقم الحروف پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ میں نے القاعدہ کی قیادت کی شان میں ’’گستاخی‘‘ کا ارتکاب کیا ہے۔ جہاں تک القاعدہ کے قائدین کی جرات وحوصلہ، وقت کی سپر پاور سے ٹکر لینے کے عزم، امت مسلمہ کی پستی اور زبوں حالی پر اضطراب اور آسودگی وآسائش کی زندگی چھوڑ کر جنگ کا کٹھن راستہ اختیار کرنے کا تعلق ہے تو شخصی اوصاف کے طور پر یہ چیزیں یقیناًقابل تحسین ہیں، لیکن اس بنیاد پران حضرات کی اختیار کردہ منفی حکمت عملی اور امت مسلمہ کے حق میں اس کے تباہ کن نتائج سے کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ میرے نزدیک یہ پہلو بے لاگ اور بے رحم تنقید کا تقاضا کرتا ہے اور اسی تناظر میں، میں نے بعض تحریروں میں القاعدہ کی قیادت پر سخت لب ولہجے میں تنقید کی ہے۔ یہاں ان میں سے بعض اقتباسات نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے:
’’القاعدہ اور اس قبیل کے عناصر کی اب تک کی ساری جہد وکاوش کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ مسلم معاشرے کی تائید اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نعرہ تو بلند کرتے ہیں اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے کا، لیکن حکمت عملی ایسی اختیار کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں، جدوجہد اور تباہ کاریوں کا سارا رخ خود مسلم معاشروں کے داخلی نظام اور ڈھانچے کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر جب ایک طرف امت کی مشکلات کے حل میں کوئی کامیابی نہیں ہوتی اور دوسری طرف خود مسلم معاشرے بھی اس طرز فکر کو عمومی تائید فراہم نہیں کرتے تو اس سے ایک نفسیاتی فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے جس کا اظہار مسلم حکمرانوں اور بارسوخ فکری طبقات کی تکفیر اور عام مسلمانوں کی کم سے کم تفسیق اور تنفیق کے فتووں کی صورت میں اور جہاں موقع ملے، ان کے خلاف مسلح جدوجہد کی شکل میں ہوتا ہے۔ جذباتی لفاظی اور الفاظ کی ملمع سازی سے صرف نظر کر لیا جائے تو القاعدہ کا اب تک کا نامہ اعمال اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے ’’جہاد‘‘ کے نام پر نائن الیون اور سیون سیون جیسے غیر شرعی کارنامے انجام دیے جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی نہایت منفی تصویر ابھری اور امریکہ کو وار آن ٹیرر کے نام سے افغانستان اور عراق پر حملے کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے براہ راست نتیجے کے طور پر افغانستان کی امارت اسلامیہ کا سقوط ہوا اور پھر افغانستان میں گھیرا تنگ ہونے پر ان عناصر نے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں آ پناہ لی۔ یوں اپنے وجود اور حرکتوں سے اس علاقے کے مسلمانوں کو بھی شدید مشکلات ومصائب کا نشانہ بنا دیا۔ اور اب امت مسلمہ کے مفاد میں یہ ساری ’’خدمات‘‘ انجام دینے کے بعد ان کی نظر کرم پاکستان پر ہے اور وہ یہاں کے عوام اور اہل علم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے امن وامان اور ریاستی وحکومتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اس ’’کار خیر‘‘ میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ عراق اور افغانستان کی طرح امریکہ اور عالمی طاقتوں کو یہاں بھی گھس آنے کا موقع ملے اور یوں ’’مجاہدین‘‘ امت مسلمہ کی سربلندی کا ایک اور کارنامہ اپنے نامہ اعمال میں درج کرا سکیں۔‘‘ (الشریعہ، فروری ۲۰۱۲ء، ص ۶۲۶، ۶۲۷)
’’اس تصور جہاد کے نمایاں خط وخال یہ ہیں: مسلمانوں کی ایک ریاست میں بیٹھ کر وہاں کے ارباب حل وعقد کی اجازت اور رضامندی کے بغیر ایک غیر مسلم ملک کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنا، دشمن کی فوجی طاقت کو ہدف بنانے کی صلاحیت کے فقدان کا بدلہ دشمن کی عام آبادی کو نشانہ بنا کر لینا اور اس کے لیے احمقانہ شرعی جواز گھڑنا، چند برخود غلط جہادی نظریہ سازوں کا اپنی ذات کو لاکھوں مسلمانوں کی جان ومال سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کرنے کے بجائے پوری کی پوری قوم کو جنگ کے بے پناہ مصائب وآلام کا شکار بنا دینا، عالمی طاقتوں کو اس ملک پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرنے کے بعد اپنے غیور میزبانوں کے ساتھ میدان جنگ میں ٹھہرنے اور ان کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑنے کے بجائے وہاں سے فرار ہو کر ایک پڑوسی ملک میں پناہ لے لینا اور اس طرح اپنے وجود نامسعود سے اس ملک کے عوام اور فوج کو بھی جنگ کے شعلوں کی نذر کر دینا، پھر اپنی اور اپنے ہم نوا عناصر کی موجودگی کے خلاف اس ملک کی افواج کی طرف سے مجبوراً فوجی آپریشن کیے جانے پر پوری فوج کو مرتد قرار دینا اور اس بنیاد پر وہاں کے عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف برسر پیکار کر دینا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو مسلمان ملکوں میں قتل وغارت اور فساد کی یہ ساری آگ لگانے کے بعد خود ’’شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن‘‘ کی تصویر بن کر بیوی بچوں سمیت کسی پرفضا مقام کی خفیہ سکونت اختیار کر لینا۔‘‘ (الشریعہ، جولائی ۲۰۱۳ء، ص ۳۱، ۳۲)
آخر میں اس بات کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ میرے مطالعہ وتحقیق کا میدان بنیادی طور پر فقہ وشریعت کے مباحث اور بالخصوص عصر حاضر کے تناظر میں ان کی تشریح وتنفیذ سے متعلق مسائل ہیں اور اس دائرے میں، میں نے اپنے طالب علمانہ فہم کے مطابق اہل سنت کی مستند علمی روایت کی روشنی میں بعض روایتی فقہی مواقف پر ازسرنو غور وفکر کی ضرورت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اعتقادی وکلامی امور بنیادی طور پر میری بحث وتمحیص کا دائرہ نہیں اور اس حوالے سے میں دور قدیم میں ’’الفقہ الاکبر‘‘ اور ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ کو، دورِ متوسط میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے افکار کو اور اس پچھلے دور میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تشریحات کو بحیثیت مجموعی اہل سنت کے اعتقادی منہج کا مستند ومتوازن ترجمان تصور کرتا ہوں۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم

چند علمی مسائل کی وضاحت

 

چند علمی مسائل کی وضاحت

’الشریعہ‘ کے جولائی اور اگست ۲۰۰۱ء کے شماروں میں شائع ہونے والی میری تحریروں کے حوالے سے جد مکرم استاذ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے بعض امور کی طرف توجہ دلائی اور ان کی وضاحت کی ہدایت کیہے۔ میں استاذ گرامی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی پیرانہ سالی، علالت اور ضعف کے باوجود ازراہ شفقت ایک طالب علم کی آرا پر تنقیدی نظر ڈالنے کی زحمت فرمائی اور اپنی علمی رہنمائی سے بعض آرا پر ازسرنو غور وفکر اور بعض کی اصلاح کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو صحت وعافیت اور تندرستی سے نوازے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے۔ آمین۔

ان امور کی تفصیل حسب ذیل ہے:

۱۔ ’الشریعہ‘ کے جولائی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’’اسلام میں عبادت‘‘ کے عنوان سے میری ایک تحریر شائع ہوئی ہے جس میں، میں نے عرض کیا ہے کہ اگرچہ نماز کا بنیادی ڈھانچہ دین میں متعین کر دیا گیا ہے، تاہم اس کے بعض اعمال ایسے ہیں جن کا کرنا یا نہ کرنا لوگوں کے انفرادی اذواق پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں جن امور کا میں نے تذکرہ کیا ، ان میں رفع الیدین، وضع الیدین، آمین بالجہر اور فاتحہ خلف الامام جیسے مسائل بھی شامل ہیں جو صدیوں سے اہل علم کے مابین مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں۔ استاذ گرامی کا ارشاد ہے کہ اہل علم کے نزدیک یہ مسائل ذوقی نہیں بلکہ علمی اور تحقیقی ہیں اور ہر فریق اپنے دلائل کی بنیاد پر جس راے کو درست سمجھتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے۔
مجھے اس سے اتفاق ہے کہ امر واقعہ یہی ہے۔ میری مذکورہ راے محض مخالف روایات کی توجیہ کی ایک کوشش ہے، ورنہ خود میر ااطمینان اور عمل ان مسائل میں احناف کے مسلک پر ہے۔**

۲۔ ’الشریعہ‘ کے اگست ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’’غیر منصوص مسائل کا حل‘‘کے زیر عنوان میرا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں فقہ اسلامی کے اصولوں کی روشنی میں بعض جدید پیش آمدہ مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔ استاذ گرامی نے اس ضمن میں جن محل اشکا ل امور کی نشان دہی کی ہے، ان کی تفصیل سے پہلے اس بات کی وضاحت مناسب سمجھتا ہوں کہ مذکورہ تحریر میں اختیار کی جانے والی آرا کسی قسم کے ادعا کے بغیر محض طالب علمانہ آرا ہیں۔ ان سے غرض نہ یہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے کہ قارئین ان میں سے کسی راے کو اپنے معتمد اہل علم کی راے کے خلاف پائیں تو اسے چھوڑ کر میری رائے پر عمل کریں۔ حاشا وکلا۔

مذکورہ مضمون کے آغاز میں، میں نے صراحتاً عرض کیا تھا کہ :

’’فقہی وعلمی مسائل میں ، جیسا کہ میں نے عرض کیا، اہل علم کے مابین اختلاف رائے کا واقع ہو جانا ایک بالکل فطری امر ہے۔ چنانچہ تمام علمی آرا کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے ان آرا کو ترجیح دی ہے جو میرے ناقص فہم کے مطابق، ازروے اصول وقواعد، اقرب الی الصواب ہیں۔‘‘

میں نے اپنے امکان کی حد تک غور وفکر کے بعد اس جذبے کے ساتھ بعض آرا قائم کیں کہ اگر کسی بھی وقت ان میں فہم واستدلال کی غلطی واضح ہو جائے تو کسی تامل کے بغیر ان سے رجوع کر لیا جائے۔ چنانچہ استاذ گرامی کی نشان دہی پر میں سردست جن مسائل کی وضاحت کی ضرورت محسوس کرتا ہوں،ان کی تفصیل عرض کر رہا ہوں۔

i۔ جڑواں بہنوں کے نکاح کے ضمن میں، میں نے لکھا تھا:

’’اگر دو عورتیں اس طرح پیدا ہوئی ہوں کہ ان کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ ناقابل انفصال طریقے پر جڑے ہوئے ہوں تو ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟ عقلاً اس میں تین احتمال ہیں: یا تو وہ دونوں مجرد رہیں، یا دونوں کا نکاح دو الگ الگ مردوں سے کر دیا جائے ، اور یا دونوں کو ایک ہی مرد کے نکاح میں دے دیا جائے۔ ان میں سے تیسری صورت میں پہلی دو صورتوں کی بہ نسبت کم قباحت اور ضرر پایا جاتا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک اسی کو اختیار کیا جائے گا‘‘ (ص ۲۵)

میں نے یہ راے ’یختار اہون الشرین‘ (کم ضرر والا راستہ اختیار کیا جائے) کے اصول پر قائم کی تھی، لیکن دوبارہ غور کرنے کے بعد میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے میں کم ضرر والی صورت تیسری نہیں بلکہ پہلی ہے یعنی یہ کہ دونوں بہنیں مجرد رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمع بین الاختین کی حرمت قرآن مجید کی نص سے ثابت ہے اور ایسی حرمت میں استثنا صرف ایسے عذر کی صورت میں ماننی چاہیے جو کثیر الوقوع ہو ، جبکہ مذکورہ صورت نادر الوقوع بلکہ قریب قریب عدیم الوقوع ہے۔ اس لیے ایسی نادر صورت کے لیے منصوص حرمت میں استثنا پیدا کرنا درست نہیں ہے۔

ii۔ میں نے سر پر لگائی جانے والی جھلی ، مصنوعی دانت اور ناخن پالش کے ساتھ وضو اور غسل کو درست قرار دیا ہے (ص ۲۲) جبکہ اہل علم کی راے، بالعموم، اس کے برعکس ہے۔ میں نے جواز کی راے اس اصول پر اختیار کی کہ شریعت کے مامورات میں حتی الامکان آسانی اور سہولت کو ملحوظ رکھنا چاہیع۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ ان چیزوں کو وضو اور غسل سے مانع قرار دینے والے علما کی راے زیادہ مبنی بر احتیاط ہے۔

۳۔ ٹرین اور ہوائی جہاز میں نماز کے حوالے سے میں نے لکھا تھا کہ اگر قیام کرنے اور قبلہ رخ ہونے کا التزام کرنے میں دقت ہو تو یہ شرائط ساقط ہو جائیں گی اور بیٹھ کر کسی بھی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہوگا۔(ص ۲۴) لیکن استاذ گرامی فرماتے ہیں کہ قیام اور استقبال قبلہ کے حکم میں فرق ہے۔ ایسی صورت میں نماز کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہو تو آدمی بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے، لیکن قبلہ رخ ہونے کا التزام بہرحال کرنا ہوگا۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے لکھا ہے کہ اگر نماز پڑھتے ہوئے ریل گاڑی پھر گئی اور قبلہ دوسری طرف ہو گیا تو نماز ہی میں گھوم جائے اور قبلہ کی طرف رخ کر لے۔ (بہشتی زیور ۲/۵۰)

iv۔ بعض مسائل میں پوری تفصیل بیان نہ ہونے کی وجہ سے، فی الواقع، ابہام پیداہوا۔ یہ مسائل حسب ذیل ہیں:

میں نے لکھا تھا کہ چونکہ حکومت سعودیہ کی طرف سے حاجیوں کو مخصوص دنوں کا ویزا جاری کیا جاتا ہے اور ان کی واپسی کی تاریخ کئی دن پہلے مقرر ہو چکی ہوتی ہے، اس لیے فقہا نے اجازت دی ہے کہ اگر ایام حج میں عورت کو حیض آ جائے تو وہ ناپاکی کی حالت میں ہی طواف زیارت کر سکتی ہے۔ البتہ میں یہ واضح نہیں کر سکا کہ یہ اجازت فقہا کے نزدیک مشروط ہے، یعنی اس صورت میں عورت کو کفارے کے طور پر قربانی بھی ادا کرنی پڑے گی۔ (ملا علی قاری، ارشاد الساری، ص ۲۳۵)

اسی طرح میں نے عرض کیا تھا کہ اگر کوئی عورت کسی مکتب میں معلمہ یا طالبہ ہو اور اس کے حیض کے ایام آ جائیں تو چونکہ زیادہ دن چھٹی کرنے سے تعلیمی سرگرمیوں میں حرج واقع ہوتا ہے، لہٰذااس کے لیے حالت حیض میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہوگا۔ فقہااس میں مزید یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ وہ پوری آیت بیک دفعہ پڑھنے کے بجاے ایک ایک کلمہ کی الگ الگ ادائیگی کرے۔ (فتاویٰ عالمگیری، ۱/۲۴)

v۔ اسلامی فقہ کے قواعد کے تحت میں نے الاصل فی الاشیاء الاباحۃ (اشیا میں اصل اباحت ہے) کے قاعدہ کا بھی تذکرہ کیا اور اس کے تحت متعدد احکام کا استنباط کیا ہے۔

استاذ گرامی نے اس مسئلے پر اپنی کتابوں ’’راہ سنت‘‘ اور ’’باب جنت‘‘ میں مفصل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قاعدہ اہل علم کے نزدیک مسلم نہیں۔ اس پوری بحث کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ استاذ گرامی نے یہ بحث اصلاً اہل بدعت کے استدلال کے تناظر میں کی ہے جو اس قاعدے کا سہارا لے کر بدعات کا دروازہ چوپٹ کھول دینا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبادات کے دائرے میں الاصل الاباحۃ کا نہیں بلکہ کل محدثۃ ضلالۃ کا اصول جاری ہوتا ہے، اس لیے اس تناظر میں الاصل الاباحۃ کے قاعدہ کی تردید بالکل درست ہے۔ البتہ اجتہادی امور کے دائرے میں اہل علم کے ایک گروہ نے استنباط احکام کے حوالے سے اس قاعدے کو معتبر تسلیم کیا ہے۔ (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر ۱/۹۷، ۹۸۔ سیوطی، الاشباہ والنظائر ۱/۶۰۔ الموسوعۃ الفقہیہ، وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیۃ، الکویت، ۱/۱۳۰) امام رازی نے قائلین ومانعین کے موقف میں یوں تطبیق دی ہے کہ: ان الاصل فی المنافع الاذن وفی المضار المنع (شوکانی، ارشاد الفحول، ۱/۴۷۳) ’’جن امورمیں منفعت ہو، ان میں اصل اباحت اور جن میں ضرر ہو، ان میں اصل منع ہے۔‘‘

میں نے اپنی بحث میں جن امور پر اس قاعدے کا اطلاق کیا ہے، وہ اسی نوعیت کے ہیں اور ان میں منفعت ومصلحت کا پہلو واضح طور پر موجود ہے۔

آخر میں، میں ایک مرتبہ پھر اس گزارش کا اعادہ کروں گا کہ میری تمام آرا کو ایک طالب علم کی آرا کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ علمی دنیا میں فہم واستنباط کا اختلاف سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس کے بغیر غالباً نفس علم کا تصور بھی مشکل ہے۔ اگر کوئی بھی صاحب علم میرے استدلال کی کسی بھی کمزوری پر مجھے متنبہ کریں گے تو میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں گا اور غلطی واضح ہو جانے پر مجھے اپنی کسی بھی راے سے رجوع کرنے میں، ان شاء اللہ، ہرگز کوئی تامل نہیں ہوگا۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ۔

**متقدمین احناف کے نزدیک سری و جہری دونوں طرح کی نمازوں میں امام کے پیچھے قراء ت جائز نہیں ہے، تاہم متاخرین میں سے مولانا عبد الحی لکھنوی، مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیری اور مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی کے نزدیک سری نمازوں میں قراء ت خلف الامام جائز ہے۔

(ستمبر ۲۰۰۱ء)

فقہ اسلامی میں غیر منصوص مسائل کا حل

 

فقہ اسلامی میں غیر منصوص مسائل کا حل

مسلمانوں کی علمی میراث میں فقہ اسلامی کے نام سے جو ذخیرہ پایا جاتا ہے، وہ غور کیجیے تو دو چیزوں سے عبارت ہے: ایک ان احکام کی تشریح وتعبیر جو قرآن وسنت میں منصوص ہیں، اور دوسرے ان مسائل کے بارے میں دین کے منشا کی تعیین جن سے نصوص ساکت ہیں اور جن کے حل کی ذمہ داری قرآن وسنت کے طے کردہ ضوابط کی روشنی میں امت کے علما کے سپرد کی گئی ہے۔فقہ کا تاریخی جائزہ ثابت کرتا ہے کہ منصوص احکام کی تعبیر کا دائرہ ہو یا غیر منصوص احکام میں اجتہاد کا، چند بنیادی اصول اہل علم کے ہاں ہمیشہ مسلم رہے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ دوسرے تمام علوم وفنون کی طرح فقہ اسلامی بھی عہد بعہد ارتقا کے مراحل سے گزری ہے اور اس کے بنیادی وذیلی اصولوں کی ترتیب وتدوین اور ان سے بے شمار جزئیات کی تفریع سینکڑوں اہل علم کی علمی کاوشوں کی مرہون منت ہے۔ اس سارے عمل میں، فطری طور پر، مختلف رجحانات اور فکری خصائص رکھنے والے مکاتب فکر بھی وجود میں آئے ہیں جن کے مابین پیدا ہونے والی مختلف النوع علمی بحثیں فی الواقع علم ونظر کی آبیاری کرنے اور ان کو جلا بخشنے والی ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر یہ تمام حلقہ ہائے فکر اپنا انتساب ایک ہی بنیادی سرچشمے کی طرف کرتے ہیں اور اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو ان سب کا استدلال واستنباط چند ایسے کلی قواعد کے تابع ہوتا ہے جو ان کے مابین مابہ الاشتراک کی حیثیت رکھتے اور اس طرح اس غیر متناہی سلسلہ اختلافات میں رشتہ اتحاد پیدا کرتے ہیں ۔ جہاں تک میں غور کر سکا ہوں، فقہی مکاتب فکر کے باہمی اختلافات بظاہر کتنے ہی وسیع الاطراف محسوس ہوتے ہوں، وہ بیشتر صرف اطلاق کے اختلافات ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ استنباط کے بنیادی اصول تو ایک ہی ہیں لیکن کسی خاص مسئلے میں ان کا اطلاق کرتے ہوئے اختلاف ہو جاتا ہے۔ ایک فقیہ اپنے علم ومطالعہ کی روشنی میں ایک اصول کا اطلاق درست سمجھتا ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک بعینہ اس مسئلے میں کسی دوسرے اصول کا اطلاق بہتر ہوتا ہے۔

فقہ اسلامی کے ان قواعد کلیہ کا مطالعہ چار بنیادی عنوانات کے تحت کیا جا سکتا ہے:
۱۔ قیاس،
۲۔ احکام کی حکمت،
۳۔مصالح اور
۴۔ عرف
زیر نظر مقالہ میں ،میں نے کوشش کی ہے کہ اسلامی فقہ کے ان بنیادی قواعد کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جائے اور ان کی توضیح چند ایسی مثالوں سے کی جائے جن میں ان قواعد کا اطلاق کیا گیا ہے۔ مثالوں کا انتخاب زیادہ تر جدید پیش آمدہ مسائل سے کیا گیا ہے تاکہ ایک طرف تو یہ بات واضح ہو کہ صدیوں پہلے طے ہونے والے یہ قواعد اپنی ہمہ گیری اور جامعیت کے لحاظ سے آج بھی قابل استناد ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی سامنے آئے کہ ان قواعد کی افادیت کا مدار ہی اس بات پر ہے کہ جزئیات میں اجتہاد کا سلسلہ رکے بغیر جاری رہے اور فقہ اسلامی زمانے کے مسلسل ارتقا کا برابر ساتھ دیتی رہے۔فقہی وعلمی مسائل میں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، اہل علم کے مابین اختلاف رائے کا واقع ہوجانا ایک بالکل فطری امر ہے۔ چنانچہ تمام علمی آرا کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے ان آرا کو ترجیح دی ہے جو میرے ناقص فہم کے مطابق اصول وقواعد کے لحاظ سے اقرب الی الصواب ہیں۔

قیاس

قیا س کا مفہوم یہ ہے کہ کسی منصوص حکم کو علت کی بنا پر ان صورتوں میں بھی ثابت کیا جائے جن میں وہ علت پائی جاتی ہے۔ فقہ اسلامی کے قدیم وجدید ذخیرے میں مسائل کی ایک بہت بڑی تعداد کے احکام اس اصول کے مطابق اخذ کیے گئے ہیں۔ جدید مسائل میں اس کی ایک مثال بندوق کا شکار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر پھینک کر شکار کیے جانے والے جانور کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تیر کا نوکدار حصہ شکار کو لگا ہو اور اس سے جانور کا خون نکلا ہو تو وہ حلال ہے اور اگر تیر چوڑائی والی جانب سے جانور کو لگا ہے اور اس سے اس کی موت واقع ہوئی ہے تو وہ ذبح نہیں ہوا بلکہ چوٹ لگنے سے مرا ہے، اس لیے حرام ہے۔ تیر پر قیاس کرتے ہوئے علما نے بندوق سے شکار کیے جانے والے جانوروں کو بھی حرام قرار دیا ہے۔

قیاس کا عمل دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک پہلو کا تعلق فہم نص سے ہے، یعنی اس میں کسی منصوص حکم کی علت متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علت کی پہچان، اس کی شرائط اور اس کی تعیین کے مختلف طریقوں پر اہل اصول نے بحث کی ہے لیکن یہ تفصیل یہاں ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ دوسرا پہلو اس حکم کے تعدیہ یعنی غیر منصوص صورتوں میں اس کے اطلاق سے متعلق ہے۔ کسی حکم کی علت کی درست تعیین کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ غیر منصوص مسائل پر اس کا اطلاق بھی درست ہو۔ اس ضمن میں فقہا نے متعدد عقلی قواعد وضع کیے ہیں جن میں سے چند بنیادی قواعد کا ہم اجمالا یہاں تذکرہ کرتے ہیں۔

پہلا ضابطہ یہ ہے کہ قیاس کے دائرے میں وہ احکام نہیں آ سکتے جن کے بارے میں مستقل نص موجود ہو۔ چنانچہ سفر کی حالت میں مغرب کی نماز کو ظہر، عصر اور عشاپر قیاس کرتے ہوئے قصر کر کے نہیں پڑھا جا سکتا۔ اسی طرح خاوند اگر اپنی بیوی پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگائے تو اس پر قذف کی حد جاری نہیں کی جا سکتی۔

دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ ایسے منصوص احکام کو قیاس کا مبنی نہیں بنایا جا سکتا جو شریعت کے عام ضوابط کے تحت نہیں آتے بلکہ ان کی نوعیت مخصوص احکام کی ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں:

ایک یہ کہ وہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو۔ چنانچہ ازواج کی تعداد میں جو رخصت قرآن مجید کی رو سے خاص طور پر آپ کے لیے ثابت ہے، اس میں کسی دوسرے کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ احناف نے اسی اصول پر ایسے شخص کے لیے جو کسی کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کر سکا ہو، اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے، اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے۔

دوسری یہ کہ اس کی نوعیت ایسی رخصت کی ہو جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنے مخصوص اختیارات کے تحت دی ہو۔ روایات میں ابو بردہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک سال سے کم عمر کی بکری کی قربانی کی اجازت اور سالم مولی حذیفہ رضی اللہ عنہ کے لیے بڑی عمر میں حذیفہ کی بیوی کا دودھ پینے سے حرمت رضاعت کا ثبوت اسی نوعیت کے احکام ہیں، چنانچہ ان پر دوسرے کسی فرد کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

تیسری یہ کہ وہ حکم کسی مخصوص حالت سے متعلق اور کسی قید سے مقید ہو ۔ اس صورت میں اس کو عام حکم بنانا درست نہیں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نجاشی کا انتقال ایک کافر ملک میں ہوا تھا اوراگرچہ مسلمان وہاں موجود تھے لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کی نماز جنازہ پڑھتے اور اسلامی طریقے پر ان کی تدفین کرتے۔ چنانچہ نجاشی پر قیاس کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی غائبانہ نماز جنازہ تو پڑھی جا سکتی ہے جن کی نماز جنازہ نہ پڑھی جا سکی ہو لیکن اس کو ایک عام عمل بنانا درست نہیں ہوگا ۔

تیسرا ضابطہ یہ ہے کہ قیاس کا مدار ظاہری مماثلت پر نہیں بلکہ حقیقی علت پر رکھنا چاہئے۔جدید فقہی استنباطات نے اس اصول کی اہمیت کو نہایت موکد کر دیا ہے اس لیے کہ بالخصوص معیشت کے مسائل میں کیے جانے والے قیاسات کے نتائج بہت وسیع اور دو رس ہوتے ہیں، لہذا بیان احکام میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔

کرنسی نوٹ کی قوت خرید 

قرض دے کر مدت کے عوض میں اصل سے زائد رقم لینا سود ہے جو کہ شریعت میں حرام ہے۔ زمانہ قدیم میں سونا اور چاندی کو Medium of exchangeیعنی اشیا کے تبادلہ کے لیے ذریعے کی حیثیت حاصل تھی،اس لیے شریعت میں سونے اور چاندی کے قرض میں اصل سے زائد مقدار لینے کو حرام قرار دیاگیا ہے ۔ لیکن جدید معیشت میں سونے اور چاندی کو یہ حیثیت حاصل نہیں رہی بلکہ ان کی جگہ کرنسی نوٹ نے لے لی ہے۔ کرنسی نوٹ کی قیمت چونکہ یکساں نہیں رہتی بلکہ مختلف معاشی عوامل کے تحت کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے، اس لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ نوٹ کی قوت خرید میں اس کمی بیشی کا مالی ادائیگیوں پر کیا اثر پڑے گا؟ مثال کے طور پرایک شخص نے پانچ ہزار روپے کسی کو بطورقرض دیے اور قرض دیتے وقت ان کی قوت خرید ایک تولہ سونا تھی۔ کچھ عرصہ بعد جب مقروض نے قرض واپس کیا تو پانچ ہزار روپے کی قوت خرید کم ہو کر دس ماشے رہ گئی ۔ اب کیا مقروض ہر حالت میں اتنی ہی مقدار میں نوٹ ادا کرے گا جتنے اس نے لیے تھے یا ان کی قیمت خرید کا لحاظ کرتے ہوئے اتنے نوٹ دے گا جن سے ایک تولہ سونا خریدا جا سکتا ہو؟ ایک رائے یہ ہے کہ نوٹوں کی مقدار وہی رہنی چاہئے کیونکہ کرنسی نوٹ بھی سونا چاندی کی طرح ثمن ہیں، اس لیے جیسے سونا چاندی کے قرض میں کمی بیشی درست نہیں، اسی طرح نوٹوں کے قرض میں بھی کمی بیشی ناجائز ہے۔ تاہم اس قیاس میں محض ظاہری مماثلت کو دیکھتے ہوئے حقیقی علت سے صرف نظر کر لیا گیا ہے۔ اس لیے کہ سونا چاندی کی ایک حیثیت تو بلاشبہ یہی ہے کہ وہ اشیا کے تبادلہ کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ بذات خود اپنی بھی ایک قیمت رکھتے ہیں اور جب مقروض اصل مقدار میں سونا یا چاندی واپس کرتا ہے تو قرض خواہ کو کوئی نقصان برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے برخلاف کرنسی نوٹ کی بذات خود کوئی قیمت نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک فرضی قوت خرید کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس لیے جس شخص نے دوسرے کو پانچ ہزار روپے دیے ہیں، اس نے نوٹوں کی شکل میں کوئی ایسی چیز اس کو نہیں دی ہے جو بذات خود قیمت رکھنے والی ہو بلکہ اس نے، درحقیقت، ایک ہزار روپے کی قوت خرید اس کے حوالے کی ہے۔ لہذا عدل وانصاف کی رو سے ضروری ہے کہ قرض دینے والے کو اس کی قوت خرید پوری واپس ملے، چاہے نوٹوں کی مقدار میں بظاہر زیادتی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اس صورت میں یہ زیادتی مدت کے عوض میں نہیں ، جو کہ حرمت سود کی اصل علت ہے، بلکہ اس نقصان کی تلافی کے لیے ہوگی جو اس عرصے میں نوٹ کی قوت خرید میں واقع ہو گیا ہے۔

صنعتی پیداوار کا حکم

شریعت میں مال تجارت پر ڈھائی فیصد جبکہ زمین کی پیداوار پر دس فیصد یا پانچ فیصد زکوۃ فرض کی گئی ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ تجارت میں سرمایے کے محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور سارے کا سارا سرمایہ ہر وقت معرض خطر میں ہوتا ہے، جبکہ زمین کی پیداوار میں نقصان اگر ہو سکتا ہے تو پیداوار میں ہو سکتا ہے۔ زمین، جو کہ پیداوار کا منبع ہے، بذات خود محفوظ رہتی ہے۔ اس اصول پر دیکھئے، جدید معیشت میں کارخانوں اور فیکٹریوں کی مصنوعات اور مکانوں اور جائیدادوں کے کرایوں کو اگرچہ علما نے بالعموم مال تجارت میں شمار کیا ہے لیکن ایک رائے یہ ہے کہ ان کا الحاق مال تجارت کے بجائے مزروعات کے ساتھ کر کے ان پر دس یا پانچ فیصد زکوۃ عائد کرنی چاہیے کیونکہ ان میں بھی ذرائع پیداوار یعنی مشینیں اور اوزار وغیرہ بالعموم نقصان سے محفوظ رہتی ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ دوسری رائے عقل وقیاس کے زیادہ قرین ہے۔
چوتھا ضابطہ یہ ہے کہ بعض دفعہ علت سے قطع نظر کر کے محض احتیاطا ایک چیز کو دوسرے کے قائم مقام قرار دے کر ایک کے احکام دوسری پر جاری کر دیے جاتے ہیں۔ مثلاً غسل واجب ہونے کی اصل علت تو منی کا خروج ہے لیکن احتیاطا شرمگاہوں کے محض ملنے پر غسل واجب کیا گیا ہے۔ جدید مسائل میں اس سے ملتی جلتی صورت ٹسٹ ٹیوب کے استعمال میں پائی جاتی ہے۔ ٹسٹ ٹیوب کے طریقے میں مرد کی منی کو محفوظ کر کے اسے انجکشن کے ذریعے سے یا خود اسی ٹیوب کے ذریعے سے عورت کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس صورت میں عورت پر غسل واجب ہوگا یا نہیں؟ ایک رائے یہ ہے کہ چونکہ غسل کا موجب درحقیقت منی کا ایسا دخول وخروج ہے جس میں جنسی لذت کا حصول بھی شامل ہو، اس لیے مذکورہ صورت میں غسل واجب نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اس صورت میں ازروئے علت نہیں لیکن ازروئے احتیاط غسل واجب ہوگا۔

احکام کی حکمت

شریعت کے تمام احکام ایک خاص حکمت پر مبنی ہیں جس کا حصول اس حکم سے مقصود ہے۔ غیر منصوص مسائل میں عقلی لحاظ سے کئی پہلوؤں کا اختیار کرنا ممکن ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ دیکھنا چاہئے کہ احکام کی حکمت کی رعایت کس پہلو میں زیادہ ہے۔

نمازوں کے اوقات

ایسے مقامات جہاں بعض نمازوں کا وقت نہ ملتا ہومثلا آفتاب کے طلوع وغروب کے درمیان گھنٹہ نصف گھنٹہ کا فاصلہ رہتا ہو یا کئی کئی ماہ تک مسلسل دن یا رات رہتا ہو تو وہاں نمازوں کا حکم کیا ہے؟ بعض فقہا نے محض ظاہر کو دیکھتے ہوئے یہ فتوی دیا کہ چونکہ وقت نماز کے لیے شرط ہے، اس لیے ان علاقوں میں وہ نمازیں فرض نہیں ہوں گی جن کا وقت نہیں ملتا۔ لیکن دوسری رائے ، جو زیادہ معقول ہے، یہ ہے کہ شریعت کا اصل مطلوب ایک مخصوص وقت کے اندر پانچ نمازیں ہیں۔ اوقات ان نمازوں کے لیے محض علامت اور ظاہری سبب کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ حقیقی سبب کی۔ اس لیے مذکورہ علاقوں میں بھی چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں ہی فرض ہوں گی اور ان کے اوقات قریبی علاقوں کے اوقات کے مطابق طے کیے جائیں گے۔

ٹیلی ویژن سے نماز

نماز ایک زندہ روحانی عمل ہے اوراس میں قلبی کیفیات کو اصل مقصود کی حیثیت حاصل ہے ۔ ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز پڑھنے سے یگانگت اور وحدت کی جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں، وہ ٹیلی ویژن یا ریڈیو کے پیچھے پڑھنے میں نہیں ہو سکتیں، چنانچہ مذکورہ صورتوں میں نماز درست نہیں ہوگی۔

نس بندی 

اللہ تعالی نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے، اس میں تبدیلی اور اس کے تقاضوں سے انحراف دین میں حرام ہے۔ مردوں کے عورتوں سے اور عورتوں کے مردوں سے مشابہت اختیار کرنے کو اسی بنیاد پر حدیث میں قابل لعنت عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسی اصول پر علما نے نس بندی کو حرام کہا ہے کیونکہ مردانہ صلاحیت اور اس کا جائز استعمال اسفطرت کا تقاضا ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور اس فطرت کو ختم کرنے کا اختیار انسان کو نہیں دیا گیا۔

حسن کے لیے سرجری

سرجری کے طریقوں میں ترقی کے باعث یہ ممکن ہو گیا ہے کہ انسان اپنی شکل وشباہت کو سرجری کی مدد سے اپنی پسند کے مطابق بنوالے۔ اسلام کے نزدیک انسانوں کی صورت گری مختلف حکمتوں کے تحت اللہ تعالی اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اچھی یا بری شکل دینے سے مقصود انسان کی آزمائش کرنا ہوتا ہے، اس لیے اللہ کی اس تقسیم کو قبول کرنا ہی بندگی کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اگر محض حسن پیدا کرنے کے لیے سرجری کروائی جائے تو یہ حرام ہے۔ البتہ اگر کسی شخص کی خلقت انسانوں کی عام خلقت سے مختلف ہو یا کسی حادثے کے نتیجے میں اصل شکل میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو سرجری کے ذریعے سے اس کا علاج درست ہوگا۔

حد میں مقطوع الید کی پیوند کاری

شریعت میں حدود کا مقصد محض مجرم کو سزا دینا نہیں بلکہ اسے معاشرے کے لیے عبرت بنا دینا بھی ہے۔ لہذا سرجری کے ذریعے سے کسی ایسے شخص کے اعضا کو دوبارہ جوڑنا ناجائز ہوگا جس کا ہاتھ چوری میں یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ قصاص میں کاٹا گیا ہو۔

ہمارے نزدیک حسب ذیل مسائل میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہونا چاہئے۔

روزہ میں انجکشن

علما کے مابین انجکشن سے روزہ ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے بارے میں اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک انجکشن مطلقا ناقض ہے اور بعض رگ میں لگائے جانے والے انجکشن کو ناقض اور دوسرے کو غیر ناقض قرار دیتے ہیں۔ اسسے قطع نظرکہ انجکشن میں کون سی صورت پائی جاتی ہے، علما نے یہ بات بطور اصول تسلیم کی ہے کہ اگر جسم کے اندر داخل کی جانے والی کوئی چیز کسی منفذ کے ذریعے سے دماغ یا معدہ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک روزے کا مقصد دراصل انسان کو اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دینا ہے اور اس مقصد کے لیے شریعت میں اکل وشرب اور جماع کو ممنوع کیا گیا ہے۔ چونکہ علاج کی غرض سے کسی بھی قسم کی بیرونی دوا یا انجکشن استعمال کرنے سے اس مقصد پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ا س لیے یہ چیزیں ناقض صوم نہیں ہو سکتیں۔ البتہ اگر کوئی شخص کوئی دوا یا انجکشن استعمال ہی اس غرض سے کرتا ہے کہ ا س کے بدن کو تقویت پہنچے اور کمزوری محسوس نہ ہو تو یہ روزے کے مقصد کے خلاف ہے، لہٰذا اس صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا، خواہ وہ رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں۔

کیسٹ کو بے وضو چھونا

بعض علما کا خیال ہے کہ ایسی کیسٹ کو چھونے کے لیے بھی باوضو ہونا ضروری ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت ریکارڈ کی گئی ہو کیونکہ وضو کے حکم کا مقصد قرآن کا احترام ہے اور احترام جیسے لکھے ہوئے قرآن کا ہونا چاہئے، اسی طرح ریکارڈ کیے ہوئے قرآن کا بھی ہونا چاہئے ۔ (جدید فقہی مسائل، ج ۱، ص ۳۳) ہمارے نزدیک ادب اور احترام کا تعلق انسان کی داخلی کیفیات سے ہے۔ چونکہ کیسٹ پر قرآن ظاہری طور پرلکھا ہوا نہیں ہوتا اس لیے اس کو چھوتے ہوئے آدمی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ اس نے قرآن پکڑا ہوا ہے اور نہ وہ کوئی حجاب محسوس کرتا ہے، چنانچہ اس صورت میں باوضو ہونے کی شرط لگانا درست نہیں۔

ٹیپ ریکارڈر سے قرآن سننے پر سجدۂ تلاوت

علما کا خیال ہے کہ ٹیپ ریکارڈر سے تلاوت سننے پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ سننے والا، خود پڑھنے والے کی زبان سے قرآن سنے۔ ہمارے نزدیک یہ محض ایک فقہی موشگافی ہے۔ سجدۂ تلاوت کی حکمت یہ ہے کہ آدمی ایسی آیات کو سن کر جن میں سجدہ کی ترغیب دی گئی ہے، فورا ان کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی عاجزی کا اظہار کرے۔ ظاہر ہے کہ اس میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیتکسی کی زبان سے سنی گئی ہے یا ٹیپ ریکارڈر سے، اس لیے ہمارے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم ایک ہونا چاہئے۔

مصالح

مصالح کے عنوان کے تحت مختلف ذیلی اصول مندرج ہوتے ہیں:

۱) الدین یسر

پہلا اصول یہ ہے کہ مامورات میں، یعنی ایسی باتوں میں جن کا کرنا دین مین مطلوبہے، حتی الوسع یسر اور آسانی کو ملحوظ رکھا جائے۔ میرے نزدیک حسب ذیل مسائل میں اس اصول کا اطلاق ہونا چاہئے۔

وگ اور مصنوعی دانتوں کے ساتھ غسل 

علما نے ایسے دانتوں میں جو مستقل طور پر لگا دیے گئے ہوں اور ایسے دانتوں میں جن کو اتارا جا سکے، فرق کرتے ہوئے دوسری صورت میں غسل میں دانتوں کے اتارنے کو ضروری قرار دیا ہے۔اسی طرح سرجری کے بعض نئے طریقوں میں گنجے پن کے مریضوں کے سروں پر ایک جھلی لگا دی جاتی ہے جس پر بال لگادیے جاتے ہیں۔ یہ جھلی مستقل طور پر لگا دی جاتی ہے اور سر سے جدا نہیں ہو سکتی۔ علما نے اس طرح کی وگ کو بھی غسل سے مانع قرار دیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ دونوں فتوے یسر کے خلاف ہیں۔

ناخن پالش کے ساتھ وضو اور غسل

ناخن پالش کے بارے میں علما کا موقف یہ ہے کہ اس کے ساتھ وضو درست نہیں کیونکہ اس کی تہہ ناخنوں تک پانی کے پہنچنے سے مانع ہے۔ ہمارے نزدیک یسر کے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو جسم کے ساتھ اس طرح چپک جائے کہ اس کو الگ کرنے کے لیے رگڑنے یا کھرچنے کی ضرورت پڑے تو وہ اصل جلد ہی کے حکم میں ہوگی۔ اس طرح ناخن پالش، پینٹ یا تارکول وغیرہ کے جسم پر لگنے کی صورت میں ان کو اتارے بغیر وضو اور غسل درست ہوگا۔

جرابوں پر مسح 

فقہا نے جرابوں پر مسح کے لیے ثخین یعنی موٹا ہونے کی جو شرائط عائد کی ہیں، وہ ہمارے نزدیک قلب موضوع کی نوعیت کی ہیں۔ موزوں پر مسح دین کی رخصتوں میں سے ایک بالکل معقول رخصت ہے اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے جرابوں کے لیے قیاس کا مبنیٰ بن سکتا ہے، لہذا جرابوں پر مسح کے لیے اس قسم کی شرائط عائد کرنا رخصت کے مزاج کے خلاف ہے۔

ممسک حیض ادویہ

حج کے ایام میں تمام افعال حج کو اپنے مقرر وقت پر انجام دینے کے لیے اگر خواتین ایسی ادویہ استعمال کریں جو وقتی طور پر حیض کے خون کو ردک دیں تو کوئی قباحت نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی خاتون محسوس کرے کہ رمضان گزرنے کے بعد تنہا روزے رکھنا مشکل ہوگا تو وہ رمضان ہی میں روزے رکھنے کے لیے ایسی ادویہ استعمال کر سکتی ہے۔

۲) الاصل الاباحۃ

دوسرا اصول یہ ہے کہ اشیا میں اصل اباحت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عمل درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی ممانعت شریعت میں وارد ہوئی ہو۔ اس اصول پر حسب ذیل امور جائز قرار پاتے ہیں۔

اعضا کی پیوند کاری

علما کے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ ایک انسان اپنا کوئی عضو اپنی زندگی میں یا موت کے بعد کسی دوسرے شخص کو نہیں دے سکتا، کیونکہ اس کا جسم درحقیقت اللہ کی ملکیت ہے ، اس لیے اسے اپنے جسم پر اس نوعیت کا تصرف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ علما کے دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ اعضا کی منتقلی سے انسانوں کا فائدہ متعلق ہے کیونکہ اس طریقے سے کئی مریض مرض سے نجات پا لیتے ہیں اور بعض صورتوں میں ان کی زندگی بھی بچائی جا سکتی ہے، اس لیے یہ طریقہ درست ہے۔ہمارے نزدیک یہ دوسری رائے درست ہے۔

ٹسٹ ٹیوب کا حکم 

ٹسٹ ٹیوب کی مدد سے بعض بے اولادجوڑوں کے ہاں اولاد پیدا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس طریقے سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہوگا، بشرطیکہ بچے کی تولید میں مادہ ایسے مردو عورت ہی کا استعمال کیا جائے جو شرعی طور پر میاں بیوی ہیں۔

چٹ فنڈ یا کمیٹی

ہمارے معاشرے میں عام لوگوں نے سہولت کی غرض سے کمیٹی کے نام سے قرض کا ایک طریقہ رائج کیاہے جس میں تمام شرکا ہر ماہ رقم کی ایک متعین مقدار ادا کرتے ہیں اور جمع شدہ رقم باری کے مطابق کسی ایک رکن کو دے دی جاتی ہے۔ اس طرح تمام شرکا اپنی اپنی باری پر اپنی رقم پوری کی پوری اکٹھی وصول کر لیتے ہیں۔ بعض اہل علم نے اگرچہ اس کو غلط قرار دیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک اس طریقے میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اس کا ایک دوسرا طریقہ جس میں شرکا کو اپنی ادا کردہ رقم سے کم یا زیادہ پیسے مل جاتے ہیں، صریحا ناجائز ہے۔

۳) الضرورات تبیح المحظورات

تیسرا اصول یہ ہے کہ شریعت کے حرام کردہ امور اضطرار کی حالت میں، ضرورت کے مطابق جائز قرار پاتے ہیں۔

بینک کی ملازمت

بینک کی بنیاد چونکہ سودی کاروبار پر ہے، اس لیے حدیث کی رو سے اس میں کسی بھی درجے میں شرکت حرام ہے۔ تاہم اگر کسی شخص کے پاس اس کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ معاش نہ ہو جس سے اس کے روزمرہ اخراجات پورے ہو سکتے ہوں تو وہ متبادل ذریعہ معاش میسر ہونے تک بینک کی ملازمت کر سکتا ہے۔

سودی قرض لینا

سود پر قرض دینا اور لینا، اصولی طور پر، دونوں حرام ہیں۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنی روزہ مرہ ضروریات (خوراک اور لباس) پورا کرنے سے بھی عاجز ہو تو وہ ضرورتا سود پر قرض لے سکتا ہے۔

ٹیکس اور سود میں سود کی ادائیگی

اگر کسی شخص کے پاس سود کی رقم کسی طریقے سے آ جائے تو اس کے لیے اس کو اپنی ملک سے نکال دینا واجب ہے، اپنی ذات پر خرچ نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر اس پر کسی ایسے ٹیکس کی ادائیگی واجب ہو جو حکومت نے ناجائز طو رپر عائد کیا ہے یا اس نے مجبورا سود پر قرض لیا ہو تو وہ سود کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کو ٹیکس اور سود کی ادائیگی میں استعمال کر سکتا ہے۔

پوسٹ مارٹم

انسانی جسم کی چیر پھاڑ ناجائز ہے۔ لیکن علاج یا دیگر ضرورتوں کے تحت اس کی اجاز ت ہے۔ طب جدید میں موت کی وجوہ اور اس طرح کے دیگر معاملات کی تفتیش کے لیے مردے کے جسم کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔ ضرورت کے اصول کے تحت یہ درست ہوگا۔

۴) المشقۃ تجلب التیسیر

چوتھا اصول یہ ہے کہ شریعت نے بعض احکام میں جو شرائط وقیود لاگو کی ہیں، اگر کسی موقع پر ان کی پابندی کرنے سے حرج لاحق ہوتا ہو تو ان کی رعایت ضروری نہیں رہے گی۔

طویل الاوقات علاقوں میں روزہ

ایسے علاقے جہاں ایک طویل عرصہ تک مسلسل دن اور پھر رات کا سلسلہ رہتا ہے، روزے کے اوقات قریب علاقوں کے اوقات کے مطابق طے کیے جائیں گے کیونکہ اس قدر طویل عرصہ تک روزہ رکھنا ناممکن ہے۔

ٹرین، ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز

نماز میں قیام کرنا اور قبلہ رخ ہونا لازم ہے۔ تاہم ٹرین، ہوائی جہاز یا بحری جہاز میں سفر کرتے ہوئے اگر قیام کرنے یا قبلہ رخ ہونے کا التزام کرنے میں دقت ہو تو یہ شرائط ساقط ہو جائیں گے اور بیٹھ کر کسی بھی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہوگا۔

حالت حیض میں بیت اللہ کا طواف

بیت اللہ کے طواف کے لیے حیض ونفاس اور جنابت سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اس لیے اگر ایام حج میں عورت کو حیض آ جائے تو وہ پاک ہونے کے بعد ہی طواف زیارت کر سکتی ہے۔ لیکن آج کل اس پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ حکومت سعودیہ کی طرف سے حاجیوں کو مخصوص دنوں کا ویزا جاری کیا جاتا ہے اور ان کی واپسی کی تاریخ کئی دن پہلے سے مقرر ہو چکی ہوتی ہے اس لیے عورتوں کے لیے حیض سے پاک ہونے کا انتظار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس صورت میں فقہا نے اجازت دی ہے کہ عورت ناپاکی کی حالت میں ہی طواف زیارت کر سکتی ہے۔

حالت حیض میں تلاوت قرآن

حیض کی حالت میں عورت کے لیے قرآن کا پڑھنا ناجائز ہے۔ لیکن اگر کوئی عورت کسی مکتب میں معلمہ یا طالبہ ہو تو ظاہر ہے کہ زیادہ دنوں تک چھٹی کرنے سے تعلیمی سرگرمیوں میں حرج واقعہوتا ہے، لہذا ایسی خواتین کے لیے حالت حیض میں قرآن کا پڑھنا پڑھانا جائز ہوگا۔

۵) ما ادی الی المحظور فہومحظور

پانچواں اصول یہ ہے کہ جو چیزیں کسی ممنوع امر کا ذریعہ اور سبب بن سکتی ہوں، ان پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کا دوسرا نام سد ذرائع ہے۔

جدید مسائل میں اس کی نظیر مانع حمل ادویہ اور آلات کی عام فراہمی ہے۔ علما نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ معاشرے کو زنا سے محفوظ رکھنے کے لیے داخلی پاکیزگی کی تربیت کے ساتھ ساتھ خارجی موانع بھی برقرار رہنے چاہئیں اور شریعت نے اسی غرض پردہ وغیرہ کے احکام دیے ہیں۔ زنا کے بارے میں انسانی جبلت اور معاشرتی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں اصل مانع کی حیثیت بدنامی کے خوف کو حاصل ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس مانع کو معاشرے میں برقرار رکھا جائے، ورنہ زنا پر کنٹرول ناممکن ہو جائے گا۔ مانع حمل ادویہ اور آلات کی سر عام فراہمی نے خود ہمارے معاشرے میں بھی، جہاں اعتقادی طور پر زنا کو حرام سمجھا جاتا ہے، اس خوف کو ختم کر دیا ہے اور زنا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ عام ہو گیا ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ مانع حمل ادویہ اور آلات کی فراہمی کو محدود کیا جائے اور شادی شدہ جوڑوں کے علاوہ دوسروں کو اس کی فراہمی پر پابندی عائد کی جائے۔

۶) یختار اہون الشرین

چھٹا اصول یہ ہے کہ اگر کسی ایسی صورت حال سے سابقہ پیش آجائے کہ دو ناپسندیدہ باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑ جائے تو کم تر ضرر اور مفسدے پر مشتمل صورت کو اختیار کیا جائے گا۔

ظلم کے نظام میں شرکت

کسی ایسے اسلامی یا غیر اسلامی ملک میں جہاں ظلم کا نظام ہو، کاروبار حکومت میں شریک ہونے کی صورت میں، ظاہر ہے، آدمی کو بہت سے ناجائز کام کرنے پڑیں گے، چاہے وہ دل سے ان کے کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ یہی صورت ہمارے معاشرے میں تجارت کی ہے۔ لیکن اگر ان میدانوں میں شرکت کو نیک لوگوں کے لیے بالکل ممنوع قرار دیا جائے تو یقیناًزیادہ بڑے مفاسد پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو ان میدانوں میں آنے کی نہ صرف اجازت بلکہ ترغیب دی جائے جو طبعا برائی کو ناپسند کرتے ہوں اور اس کو مجبوری کے دائرے میں رکھتے ہوئے باقی امور میں ملک وقوم کی خدمت انجام دے سکیں۔

جڑواں بہنوں کا نکاح

اگر دو عورتیں اس طرح پیدا ہوئی ہوں کہ ان کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ ناقابل انفصال طریقے پر جڑے ہوئے ہوں تو ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟ عقلا اس میں تین احتمال ہیں: یا تو وہ دونوں مجرد رہیں، یا دونوں کا نکاح دو الگ الگ مردوں سے کر دیا جائے، اور یا دونوں کو ایک ہی مرد کے نکاح میں دے دیا جائے۔ ان میں سے تیسری صورت میں پہلی دو صورتوں کی بہ نسبت کم قباحت اور ضرر پایا جاتا ہے، اس لیے اسی کو اختیار کیا جائے گا۔

مسجد کی حیثیت کا خاتمہ

فقہا کے نزدیک جب ایک دفعہ کسی جگہ پر مسجد بن جائے تو وہ قیامت تک کے لیے مسجد ہی رہے گی، اس جگہ کو کسی اور استعمال میں لانا ناجائز ہے۔ تاہم اگر کسی غیر مسلم ملک میں کوئی مسجد نقل آبادی کی وجہ سے ویران ہو جائے اور خدشہ ہو کہ کفار مسجد کی بے حرمتی کریں گے تو ایسی مسجد کو بیچ دینا یا اس کی ہیئت کو تبدیل کر کے مسجد کی علامات ختم کردینا درست ہوگا۔

عرف

قانون سازی میں معاشرے کے عرف ورواج کی اہمیت دنیا کے تمام قدیم وجدید قانونوں میں مسلم ہے اور فقہ اسلامی میں بھی اسے ایک مستقل ماخذ قانون کی حیثیت دی گئی ہے۔
عرف کے ضمن میں پہلا ضابطہ یہ ہے کہ اگر وہ نصوص شریعت اور اس کے مزاج کے خلاف نہ ہو تو معتبر ہوگا۔ہر معاشرہ اپنی ضروریات اور حالات کے لحاظ سے افراد معاشرہ کے حقوق کی حفاظت اور معاملات کو باسہولت انجام دینے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس نوعیت کے تمام احکام اسلامی فقہ میں حجت مانے جاتے ہیں، الا یہ کہ وہ شریعت کی طے کردہ حدود ومقاصد سے ٹکراتے ہوں۔

مثال کے طور پر فقہا نے حقوق کی ایک قسم حقوق عرفیہ بیان کی ہے، جس کا مطلب ہے ایسے حقوق جو نص سے ثابت نہیں لیکن کسی خاص عرف یا ماحول میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کے ثبوت کا مدار عر ف پرہے، اس لیے زمان ومکان کے اختلاف سے یہ مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ حقوق عرفیہ کی چند نئی صورتیں جو ہمارے زمانے میں رائج ہیں اور جنہیں اہل علم نے تسلیم کیاہے، حسب ذیل ہیں:

۱۔ کرایہ داری کے مروج طریقوں میں جائیداد کا مالک کرایہ دار سے کرایہ کی رقم کے علاوہ ایک متعین رقم پگڑی کے نام سے الگ سے وصول کرتا ہے جس کا مقصد کرایہ دار کی جانب سے جائیداد کی حفاظت اور بروقت جگہ خالی کرنے کی ضمانت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ علما نے اس صورت کو درست تسلیم کیا ہے۔

۲۔ جدید قوانین میں کسی کتاب کے مصنف یا ناشر کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ ان سے اجازت لیے یا ان سے معاہدہ کیے بغیر کوئی دوسرا شخص یا ادارہ اس کتاب کو شائع نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کسی ایجاد کے موجد کی اجازت کے بغیر اس کی تیاری اور فروخت نہیں کی جا سکتی۔

۳۔ کمپنیاں مختلف کاروباری فوائد کی خاطر مخصوص نام اور ٹریڈ مارک رجسٹرڈ کراکر اپنی مصنوعات کی تشہیر کرتی ہیں اور اس طرح صارفین میں اس نام کی ایک ریپوٹیشن بن جاتی ہے۔ جدید قوانین کی رو سے کسی دوسری کمپنی کو اس نام یا ٹریڈ مارک کے ساتھ مصنوعات بنانے یا بیچنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے اصل کمپنی کو کاروباری لحاظ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور لوگوں کے ساتھ بھی دھوکا ہوتا ہے۔

دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ عرف اگر نصوص شریعت یا اس کے مزاج کے خلاف ہو تو معتبر نہیں ہوگا۔ چنانچہ جدید دور میں سود ،جوئے اور دیگر شرعی محرمات کی تمام صورتوں کو اہل علم نے بالاتفاق حرام قرار دیا ہے، اگرچہ وہ معاشرے میں بہت عام ہو گئی ہیں۔ ان میں سے کسی صورت کو اختیار کرنا شدید مجبوری کی حالت کے سوا ناجائز ہوگا۔

تیسرا ضابطہ یہ ہے کہ عرف اگر قیاس خفی کے معارض ہو تو عرف کو ترجیح ہوگی۔اس کی مثال تعطیلات کی اجرت ہے۔ قیاس کی رو سے تو آدمی کو صرف ان دنوں کی اجرت لینی چاہئے جن میں اس نے خدمت انجام دی ہے۔ لیکن چونکہ بالعموم اداروں، محکموں اور کمپنیوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ملازمین کو تعطیلات کی اجرت بھی دی جاتی ہے، اس لیے یہ طریقہ درست مانا گیا ہے۔

اسی طرح ہمارے ملک میں یہ طریقہ رائج ہے کہ پرنٹنگ پریس ایک ہزار یا گیارہ سو تک نسخوں کی اشاعت کا ایک ہی معاوضہ وصول کرتا ہے۔ بظاہر دس یا بیس نسخوں اور ایک ہزار نسخوں میں بڑا تفاوت ہے اور ازروئے قیاس طباعت کے معاوضے میں بھی فرق ہونا چاہئے، لیکن چونکہ یہ طریقہ عام رائج ہے اور عرفا اس کو تسلیم کیا جاتا ہے، لہذا قیاس ناقابل التفات ہوگا۔

چوتھا ضابطہ یہ ہے کہ عرف کے بدلنے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں۔ مثلاً کرنسی نوٹ جب نیا نیا متعارف ہوا تو اس وقت عرف کے لحاظ سے اس کی حیثیت ایک وثیقہ اور ضمانت کی تھی، چنانچہ علما نے اس کے لین دین پر وثیقہ کے فقہی احکام جاری کرتے ہوئے فتوی دیا تھا کہ ان سے زکوۃ یا قرض وغیرہ اس وقت تک ادا نہیں ہوں گے جب تک کہ صاحب حق بینک سے اصل زر وصول نہ کر لے۔ لیکن اب نوٹ کی حیثیت عرفی ثمن کی ہے اور کوئی شخص ان کو وثیقہ یا اصل رقم کی ضمانت نہیں سمجھتا، لہذا ان اس پر عرفی ثمن کے احکام جاری ہوں گے اور ان کے ادا کرنے سے قرض ، زکوۃ اور دوسری ادائیگیاں، حقیقی ادائیگیاں سمجھی جائیں گی۔

انسانی علم کے ارتقا نے جو نئی سہولیات مہیا کی ہیں، ان سے استفادہ بھی، ہمارے نزدیک، اسی ضمن میں آتا ہے۔ چنانچہ رؤیت ہلال میں جدید سائنسی آلات سے ، جرائم کی تفتیش میں تربیت یافتہ کتوں اور انگلیوں کے نشانات سے، اور قتل وزنا کے مقدمات کی تحقیق میں پوسٹ مارٹم ، ڈی این اے ٹیسٹ اور طبی معائنے کی دوسری صورتوں سے مدد لینا بالکل درست ہوگا۔

ان بنیادی امور کے علاوہ فقہا نے مزید حسب ذیل شرائط عائد کی ہیں
۱۔ قانون سازی اس عرف پر ہوگی جو بوقت قانون سازی معمول بہ ہو۔
۲۔ عرف غالب اور عام ہو۔
۴۔ معاشرے میں اس کا پورا کرنا ضروری سمجھا جاتا ہو۔
۴۔ معاملہ کرنے والوں نے اس کے برخلاف کوئی شرط نہ لگائی ہو۔

نتیجہ بحث

فقہی قواعد کلیہ کا یہ جائزہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ اسلامی فقہ نئے پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع، مربوط اور منضبط ضابطہ رکھتی ہے۔ یہ قواعد کلیہ مضبوط علمی وعقلی اساسات پر مبنی ہیں اور، چند جزوی اختلافات سے قطع نظر، فقہا کے مابین ہمیشہ مسلم رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد خود قرآن مجید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور فقہا صحابہ کے اجتہادات میں موجود ہے۔ ان قواعد کی جامعیت عقلی استقرا کے لحاظ سے بھی بالکل قطعی ہے اور ان چودہ صدیوں میں ان کے عملی استعمال نے بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ قیامت تک انسانی زندگی کو پیش آنے والے ہر نشیب وفراز کا سامنا کرنے اور ہر قسم کے مسائل کے حوالے سے دین کا منشا متعین کرنے کے لیے کافی وشافی ہیں۔

امیر عبد القادر الجزائری: شخصیت وکردار کا معروضی مطالعہ

امیر عبد القادر الجزائری: شخصیت وکردار کا معروضی مطالعہ

کچھ عرصہ قبل راقم الحروف نے انیسویں صدی میں الجزائر کے عظیم مجاہد آزادی، عالم اور صوفی، امیر عبد القادر علیہ الرحمہ کی شخصیت کو اردو دان قارئین کے ہاں متعارف کروانے کے لیے جان کائزر کی کتاب کے اردو ترجمے کی اشاعت کے حوالے سے جو قدم اٹھایا تھا، بحمد اللہ اس کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ قارئین کا ایک بہت بڑا حلقہ، جو اس سے قبل ان کا نام بھی نہیں جانتا تھا، ان کی شخصیت سے فی الجملہ متعارف ہو چکا ہے، بلکہ ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے اور ان کے تاریخی کردار سے زیادہ گہری آگاہی حاصل کی خواہش بھی بڑے پیمانے پر پیدا ہو چکی ہے۔ خدا کا کرنا یہ ہے کہ اس تعارف کو وسیع پیمانے پر عام کرنے اور الجزائری کے متعلق تحقیق وتجسس کے جذبے کو ابھارنے میں بے حد اہم کردار حال میں سامنے آنے والی بعض ایسی معاندانہ تحریریں ادا کر رہی ہیں جن میں الزام تراشی اور افترا پردازی کی صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے الجزائری کی شخصیت کو مجروح کرنے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انھیں تاریخ کا ایک یکسر ناقابل اعتنا اور بے وقعت کردار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جہاں تک الجزائری کی شخصیت، افکار ونظریات اور تاریخی کردار کے مختلف پہلوؤں کے تنقیدی جائزے کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت واہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چیز تاریخی شخصیات کے مطالعے کے عمل کا ایک ناگزیر حصہ ہے اور خود راقم الحروف نے الجزائری کے تصور جہاد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے اور ان کے طرز جدوجہد کو اسلام کی معیاری تعلیمات کا نمونہ قرار دیتے ہوئے بہت سوچ سمجھ کر اور بہ تکرار ’’بڑی حد تک‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن پر میں خود اطمینان محسوس نہیں کرتا اور کسی مثبت اور مناسب علمی فضا میں گفتگو ہو رہی ہو تو مجھے ان پہلوؤں کی نشان دہی میں بھی کوئی جھجھک نہیں ہوگی۔ تاہم زیر بحث تنقیدیں الجزائری کی شخصیت کے موضوعی مطالعے یا غیر جانب دارانہ ومنصفانہ تجزیے کے جذبے سے پیدا نہیں ہوئیں۔ ان کا واحد محرک یہ خوف ہے کہ ہمارے ہاں ایک خاص جذباتی فضا میں ایک مخصوص طبقے کی طرف سے جن حضرات کوشخصیت وکردار کی ذاتی بلندی کے بجائے اصلاً امریکہ دشمنی کے جذبات کے زیر اثر جہادی ہیروؤں کا درجہ دے دیا گیا ہے، ان کا قد الجزائری کی شخصیت کے سامنے بے حد پستہ دکھائی دینے لگے گا اور جہادی مساعی کا کوئی بھی ایسا نمونہ سامنے آنے سے جس میں اولو العزمی کے ساتھ ساتھ حکمت وفراست، معروضی حالات کے فہم اور جنگی اخلاقیات کی پاس داری کے اصول نمایاں ہوتے ہوں، جہاد کے اس مسخ شدہ تصور پر زد پڑے گی جو اول وآخر سطحیت اور جذباتیت سے عبارت ہے اور قدم قدم پر شرعی اصولوں اور اعلیٰ انسانی اخلاق وکردار کی پامالی کے ناقابل دفاع نمونے پیش کرتا ہے۔

جو طبقہ اس وقت الجزائری کی داستان سے سامنے آنے والے تصور جہاد سے نفور محسوس کر رہا ہے، اس کی ذہنی ونفسیاتی ساخت کو سمجھنے کے لیے اس تصور جہاد کو سامنے رکھنا ضروری ہے جس سے یہ طبقہ مانوس ہے اور اس سے ہٹ کر جہاد کے کسی تصور میں اپنے غصے اور انتقام کے جذبات کی تسکین کا سامان نہیں پاتا۔ اس تصور جہاد کے نمایاں خط وخال یہ ہیں: مسلمانوں کی ایک ریاست میں بیٹھ کر وہاں کے ارباب حل وعقد کی اجازت اور رضامندی کے بغیر ایک غیر مسلم ملک کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنا، دشمن کی فوجی طاقت کو ہدف بنانے کی صلاحیت کے فقدان کا بدلہ دشمن کی عام آبادی کو نشانہ بنا کر لینا اور اس کے لیے احمقانہ شرعی جواز گھڑنا، چند برخود غلط جہادی نظریہ سازوں کا اپنی ذات کو کروڑوں مسلمانوں کی جان ومال سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کرنے کے بجائے پوری کی پوری قوم کو جنگ کے بے پناہ مصائب وآلام کا شکار بنا دینا، عالمی طاقتوں کو اس ملک پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرنے کے بعد اپنے غیور میزبانوں کے ساتھ میدان جنگ میں ٹھہرنے اور ان کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑنے کے بجائے وہاں سے فرار ہو کر ایک پڑوسی ملک میں پناہ لے لینا اور اس طرح اپنے وجود نامسعود سے اس ملک کے عوام اور فوج کو بھی جنگ کے شعلوں کی نذر کر دینا، پھر اپنی اور اپنے ہم نوا عناصر کی موجودگی کے خلاف اس ملک کی افواج کی طرف سے مجبوراً فوجی آپریشن کیے جانے پر پوری فوج کو مرتد قرار دینا اور اس بنیاد پر وہاں کے عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف برسر پیکار کر دینا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو مسلمان ملکوں میں قتل وغارت اور فساد کی یہ ساری آگ لگانے کے بعد خود ’’شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن‘‘ کے جذبے سے بیوی بچوں سمیت کسی پرفضا مقام کی خفیہ سکونت اختیار کر لینا۔

ظاہر ہے کہ اس فکری واخلاقی سطح کے تصور جہاد سے متاثر کوئی ذہن اگر الجزائری یا ان جیسی کسی دوسری شخصیت پر تنقید کا بیڑہ اٹھائے گا تو یہ توقع رکھنا کہ وہ تنقید تاریخی شخصیات کے معروضی مطالعے کے اصول وقوانین اور علمی اخلاقیات پر مبنی ہوگی، محض ایک بے کار توقع ہوگی۔ ایسے ذہن سے اگر توقع کی جا سکتی ہے تو اسی طرز تنقید کی جس کا نمونہ ہمیں الجزائری سے متعلق زیر بحث تنقیدوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ضمن کی بعض ہفوات پر گزشتہ شمارے میں تبصرہ کیا جا چکا ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا کہ الجزائری دراصل ایک یہودی گماشتہ تھے اور ان کی ساری جدوجہد اسی وابستگی سے متاثر اور اسی وفاداری کا عکاسی کرتی ہے، یہ کہ انھوں نے جدوجہد کے آخری مرحلے میں فرانس کے مقابلے میں شکست تسلیم کرتے ہوئے باقی زندگی کے لیے فرانس کی شہریت اور وفاداری اختیار کر کے الجزائر کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ’’غداری‘‘ کی (اور گویا یہ الجزائری قوم کی نری کم عقلی ہے کہ وہ انھیں اپنا قومی ہیرو تصور کرتی ہے، انھیں جدید الجزائر کا بانی قرار دیا جاتا ہے، الجزائر کی حکومت بڑے فخر کے ساتھ ان کا تعارف قیدیوں کے حقوق سے متعلق جدید بین الاقوامی قوانین کے پیش رَو کے طور پر کراتی ہے اور الجزائر کی وزارۃ التعلیم العالی کے زیر انتظام قسنطینہ میں ان کی یاد میں ایک مستقل یونیورسٹی ’’جامعۃ الامیر عبد القاد ر للعلوم الاسلامیۃ‘‘ کے نام سے کام کر رہی ہے) اور یہ کہ وہ ایک عیاش اور بد کردار انسان تھے جنھوں نے نہ صرف اپنے حرم میں چار سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی تھیں، بلکہ اخلاق باختہ اور آوارہ مغربی عورتوں کے ساتھ بھی ناجائز تعلقات میں ملوث تھے، وغیرہ وغیرہ۔

الزامات  کی اس فہرست میں جو تازہ اضافہ کیا گیا ہے، وہ بھی اسی طرز فکر کا عکاس ہے۔ الجزائری کے تصور جہاد کا ذکر کرتے ہوئے جان کائزر نے اپنی کتاب میں ان کے اور ان کے ساتھیوں کے اس جرات مندانہ کردار پر روشنی ڈالی ہے جو انھوں نے ۱۸۶۰ء میں دمشق میں مسلم مسیحی فسادات کے موقع پر ہزاروں بے گناہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے ادا کیا تھا۔ اس واقعے میں امیر کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ امیر عبد القادر نے جن مسیحیوں کو بچانے کی کوشش کی، وہ ’’جزیہ‘‘ کی ادائیگی سے انکار کرنے کی وجہ سے ’’باغی‘‘ تھے (اور گویا مسلمانوں کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اجتماعی قتل کے پورے پورے حق دار تھے)، جبکہ الجزائری نے ان کے دفاع کے لیے جو کردار ادا کیا، وہ بالکل غلط تھا اور اس سے الجزائری کے، مغربی طاقتوں کا آلہ کار ہونے پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
’’موصوف کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے کافروں کے خلاف جہاد نہ کرنے کا عہد کر لینے کے بعد ’’کافروں کے دفاع میں جہاد‘‘ شروع کر دیا تھا اور یہی وہ چیز ہے جو آج کل عالمی غاصب مغربی طاقتیں چاہتی ہیں۔ ۔۔۔ شام کے عیسائیوں کے پیچھے (غزوۂ تبوک کے پس منظر کی طرح آج بھی) یورپی طاقتیں تھیں اور ترک حکمران عیسائیوں کو ان کی سرکشی کی سزا دینا چاہتے تھے۔ ان دنوں میں ممدوح موصوف نے بالکل ویسے ہی عیسائیوں کے تحفظ کے لیے بے مثال خدمات پیش کیں جیسے برصغیر میں ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کے دوران انگریزوں کے تحفظ کے لیے ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے پیش کی تھیں۔‘‘ (ہفت روزہ ضرب مومن،  مئی ۲۰۱۳ء)

میں یہاں اس حوالے سے کوئی شرعی وفقہی اور قانونی بحث نہیں اٹھاؤں گا کہ کیا مسیحیوں کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی سے انکار فی الواقع کسی ایسی ’’بغاوت‘‘ کا حکم رکھتا تھا جس پر انھیں قتل کر دینا شرعاً جائز ہو یا یہ کہ ان ’’باغیوں‘‘ کو سزا دینے کا فیصلہ ترک حکام کی طرف سے قانونی اور سرکاری سطح پر کیا گیا تھا جس کی راہ میں امیر عبد القادر بلا وجہ رکاوٹ بن گئے یا، اس کے برعکس، عوام کا ایک مشتعل ہجوم خون کی ہولی کھیلنا چاہتا تھا جسے روکنے کے لیے امیر نے نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کیا یا پھر یہ کہ ’’باغیوں‘‘ کو سزا دیتے ہوئے بلا امتیاز عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور راہبوں تک کو قتل کر دینا آخر کس شریعت کی رو سے جائز ہے جو اس موقع پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔ میں یہ سب سوالات اس لیے نہیں اٹھاؤں گا کہ جو ذہن اس وقت مخاطب ہے، اس کے ہاں اس طرح کے سوالات کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اس کی نظر میں واحد قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ اس کشمکش میں ایک طرف مسیحی تھے جن کی پشت پناہی مغربی طاقتیں کر رہی تھیں اور دوسری طرف مسلمان تھے جو سیاسی وقانونی حقوق کے ضمن میں مسیحیوں کے بڑھتے ہوئے مطالبات پر نالاں تھے، اس لیے اس ذہن کے نزدیک اسلامی غیرت وحمیت کا تقاضا اس کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان جس طریقے سے بھی ان سرکش مسیحیوں کو ’’ٹھیک‘‘ کرنا چاہتے، امیر عبدالقادر ان کا ساتھ دیتے اور ہزاروں مسیحیوں کا قتل عام کر کے اسلام کی سربلندی کی ایک درخشاں مثال قائم کر دیتے۔

مذکورہ سوالات کو رکھیے ایک طرف اور یہ دیکھیے کہ مذکورہ صورت حال میں امیر کے موقف اور کردار کو واضح کرنے کے لیے علمی دیانت کا کس درجے میں اہتمام گیا ہے۔ کائزر نے متعلقہ باب میں جہاں مسیحیوں کو قتل وغارت سے بچانے کے لیے امیر کے جرات مندانہ کردار کا ذکر کیا ہے، وہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ ان کی طرف سے ٹیکس دینے سے انکار کو درست نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے قابل تعزیر جرم تصور کرتے تھے، البتہ انھیں اس طریقے سے اختلاف تھا جو احمق اور عاقبت نا اندیش ترک حکام مسلمان عوام کو مشتعل کر کے ان کے ہاتھوں مسیحیوں کے قتل عام کی صورت میں تجویز کر رہے تھے۔ یہ سطور ملاحظہ کیجیے:
’’عبدالقادر کی نظر میں قانون بالکل واضح تھا۔ عیسائی باشندے حفظ وامان میں لیے گئے لوگ تھے، لیکن وہ بہر حال قانون کا احترام کرنے کے پابند تھے۔ قانون کی نافرمانی کے معاملے میں وہ غلطی پر تھے۔ وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے تھے اور انہیں سزا ملنا ضروری تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے بھی اندھا دھند اور سفاکانہ طریقے سے انہیں ’’ٹھیک‘‘ کر کے غلط کیا۔۔۔۔ فرانسیسی ملاقاتی امیر کے منہ سے اس طرح کی سخت گیر باتیں سن کر بہت حیران ہوئے اور گمان غالب ہے کہ وہ ان نئی پیچیدگیوں سے آگاہ نہیں تھے جو ان اصلاحات سے پیدا ہوئی تھیں۔‘‘ (ص ۴۳۳)

چونکہ الجزائری کو اس واقعے میں مغربی طاقتوں کا آلہ کار ثابت کرنا مقصود ہے، اس لیے ان کا یہ پورا موقف دانستہ قارئین کے سامنے نہیں لایا جاتا اور قلم کار مطمئن ہے کہ آخر قارئین میں سے کون اتنا فارغ ہوگا جو اس کے لکھے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اپنے طو رپر بھی تحقیق کی ضرورت محسوس کرے۔ اسی طرز تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے قارئین کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ صرف یورپی دنیا تھی جس نے اس موقع پر امیر کے پر عظمت کردار کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ مجال ہے کہ قاری کو اس بات کی بھنک بھی پڑنے دی جائے کہ کائزر کی اسی کتاب میں الجزائری کے معاصر اور وسطی ایشیا کے عظیم مجاہد امام شامل کے اس خط کا اقتباس بھی نقل کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اس واقعے میں الجزائری کے کردار کی تحسین اور مسلمانوں کے عمومی طرز عمل کی پرزور الفاظ میں مذمت کی تھی:

’’شامل نے ان مسلمانوں کی مذمت کی جنھوں نے عیسائیوں کے ساتھ اتنا قابل نفرت رویہ اپنایا اور اپنے مذہب کو بدنام کیا: ’’میں ان حکام کی کور چشمی پر بھونچکا رہ گیا جنھوں نے ایسی زیادتیاں کیں اور اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث فراموش کردی کہ: ’’جس کسی نے بھی اپنے زیر امان رہنے والے کے ساتھ ناانصافی کی، جس کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی غلط حرکت کی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی، وہ جان لے کہ روز محشر میں خود اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔‘‘آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا عملی نمونہ پیش کیا ہے …..اور خود کو ان لوگوں سے الگ کر لیا ہے جو ان کے اسوے کو رد کرتے ہیں۔ …..خدا آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے جو اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۴۲۷)

یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ الجزائری کے اس کردار کی تعریف میں امام شامل کی آواز کوئی تنہا آواز نہیں، بلکہ اسے گزشتہ ڈیڑھ صدیوں میں اسلامی وغیر اسلامی دنیا میں مسلمہ پذیرائی حاصل رہی ہے اور الجزائری کی حیات وخدمات پر گفتگو کرنے والا کوئی مسلم یا غیر مسلم قلم کار ان کے اس روشن کردار کی تعریف وتوصیف کیے بغیر آگے نہیں بڑھتا۔ مثلاً دیار عرب کی عظیم احیائی تحریک ’’الاخوان المسلمون‘‘ کی سرکاری ویب سائٹ پر جو انسائیکلوپیڈیا فراہم کیا گیا ہے، اس میں ’’اعلام الحرکۃ الاسلامیۃ‘‘ کے سلسلے کے تحت امیر عبدالقادر الجزائری کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور دمشق کے مسیحیوں کو قتل عام سے بچانے کے ضمن میں ان کی مساعی کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے:
’’اس شورش میں امیر عبد القادر کے اسلامی اور انسانی کردار کی بازگشت عالمی حلقوں میں سنائی دی اور دنیا بھر کے بادشاہوں اور عالمی ممالک کے سربراہوں کی طرف سے انھیں تمغوں اور نشانات اعزاز کے ساتھ شکریے کے خطوط موصول ہوئے۔ بڑے بڑے عالمی اخبارات نے ان کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے عالی اخلاق اور انسان دوست کردار کی تعریف کی۔ امیر کے، مسیحیوں کی حفاظت کا کارنامہ انجام دینے کا محرک محض اپنے دین کی تعلیمات کی پیروی تھا جو مسلمانوں پر ان کے ملک میں مقیم اہل ذمہ کی حفاظت کو لازم ٹھہراتا ہے۔ امیر عبد القادر دین کا گہرا فہم رکھتے، اللہ کے اتارے ہوئے احکام کو جانتے اور اہل ذمہ کے حوالے سے مسلمانوں کی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف تھے، یعنی ان کو پرامن ماحول اور حفاظت مہیا کرنا اور ان کی جانوں، اموال، عزت وآبرو، عبادت گاہوں اور ہر اس چیز کی حفاظت کرنا جو معاہدۂ ذمہ میں طے کی گئی ہوں۔‘‘
(عبد_ القادر_ الجزائری=http://www.ikhwanwiki.com/index.php?title)

ہمارے ہاں پنجاب یونیورسٹی کا شائع کردہ ’’اردو دائرۂ معارف اسلامیہ‘‘ اسلام اور عالم اسلام کے حوالے سے ایک مستند علمی ماخذ کا درجہ رکھتا ہے۔ ’’عبد القادر بن محی الدین‘‘ کے عنوان کے تحت مذکورہ واقعے میں امیر عبد القادر کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
’’انھوں نے ]اپنی نیک دلی اور عالی ظرفی[ کا عملی ثبوت اس طرح پیش کیا کہ جب دروز قبائل عیسائیوں کا قتل عام کرنے پر کمربستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے تو انھوں نے فرانسیسی قونصل کو ان کے پنجے سے نجات دلائی اور کئی ہزار اشخاص کی جان بچائی۔‘‘ (ج ۱۲، ص ۹۲۳)

الجزائری کی شخصیت وکردار کے ناقدانہ مطالعے کی یہ سطحی کوششیں، جیسا کہ میں نے واضح کیا، ایک منفی ذہن اور خوف کی نفسیات کی پیداوار ہیں، اس لیے ان میں معروضیت، دیانت یا توازن کی توقع کرنا بدیہی طو رپر بے کار ہے۔ ان کی جگہ تاریخ کا کوڑا دان (dust bin) ہے اور چند دنوں میں ان کا ’ہباء ا منثورا‘ ہو جانا نوشتہ دیوار۔ تاہم الجزائری کی داستان حیات کے سنجیدہ، معروضی اور متوازن تنقیدی مطالعات کی نہ صرف گنجائش بلکہ اہمیت وافادیت مسلم ہے اور حالیہ بحث ومباحثہ کے نتیجے میں سنجیدہ اہل فکر جس طرح اس موضوع کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، اس سے مجھے مستقبل میں الجزائری کی شخصیت کے، تجزیہ وتنقید کے معروضی اصولوں کے تحت موضوع بحث بنائے جانے کے امکانات بہت روشن دکھائی دیتے ہیں۔ خود راقم الحروف کو اس موضوع پر مزید کام کرنے کی فرصت اور موقع میسر ہوا تو ان شاء اللہ میں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا، تاہم اس موضوع کی طرف متوجہ ہونے والے دیگر اہل فکر کے سامنے چند گزارشات پیش کرنا اس مرحلے پر مناسب خیال کرتا ہوں۔

ایک یہ کہ کسی بھی شخصیت کے طرز فکر سے استفادہ کرنے اور اس کے کردار کی عظمت تسلیم کرنے کے لیے یہ ہرگز ضروری نہیں کہ وہ انسانی کردار کے ہر ہر پہلو کے لحاظ سے معصوم عن الخطا ہو اور اس کی داستان حیات میں کہیں بھی انگلی رکھنے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ پیغمبروں کے علاوہ کسی بھی دوسرے انسان کی شخصیت کو عظمت کے اس معیار پر پرکھنے کی کوشش کسی بھی لحاظ سے دانش مندی یا قرین انصاف نہیں کہلا سکتی۔ عام انسانی شخصیات کے فکر اور کردار کے مطالعے کا درست طریقہ یہ ہے کہ انھیں خوبیوں اور خامیوں، کمالات اور نقائص، اور پختگی اور کمزوری، دونوں طرح کے عناصر کا مجموعہ سمجھا جائے اور کسی بھی شخصیت کے مقام ومرتبہ اور تاریخی کردار کا مجموعی وزن ان دونوں عناصر کے باہمی تناسب کی روشنی میں متعین کیا جائے۔ کسی شخصیت کو ہر طرح کی کمزوری اور خامی سے پاک دکھانا اور اس کی ہر ہر بات کے دفاع پر کمر کس لینا یا اس کے برعکس بعض ناہمواریوں کی بنا پر پوری شخصیت کو ناقابل اعتبار اور مجروح ٹھہرانا، یہ دونوں روشیں حقیقت پسندی اور معروضیت کے خلاف ہیں اور غیر متوازن طرز فکر کی نشان دہی کرتی ہیں۔

اس ضمن میں مثال کے طور پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا خالد بن ولید کو خود زبان رسالت سے ’’سیف من سیوف اللہ‘‘ کا لقب عطا ہوا، جبکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر ان کے جنگی اقدامات سے یوں براء ت ظاہر کی کہ ’اللہم انی ابرا الیک مما صنع خالد بن الولید‘ ،’’اے اللہ! خالد بن ولید نے جو کچھ کیا، میں اس سے تیرے سامنے براء ت ظاہر کرتا ہوں‘‘۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بنو جذیمہ کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا۔ آپ نے انھیں ان کے خلاف جنگ کا حکم نہیں دیا تھا، لیکن خالد بن ولید نے ان کی طرف سے ہتھیار ڈال دینے اور قبول اسلام پر آمادگی ظاہر کرنے کے باوجود انھیں باندھ کر قتل کر دیا۔ (صحیح بخاری، رقم ۶۷۶۶۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۳۶۳)
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے اسی نوعیت کے بعض دیگر اقدامات بھی تاریخ وسیرت کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں۔ (مثلاً مالک بن نویرہ کے قتل کا واقعہ۔ دیکھیے: ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ ۶/۳۲۲)

اب بڑا نادان ہوگا وہ شخص جو خالد بن ولید کی شخصیت کے اس پہلو کے پیش نظر ان کے اس عظیم مجاہدانہ کردار ہی کی نفی کر دے جو انھوں نے ’’سیف اللہ‘‘کی حیثیت سے اسلام کی سربلندی کے لیے انجام دیا اور اسلام کے ایک جلیل القدر ہیرو کے طور پر ان کی تعریف وتوصیف سن کر یہ اعتراض کرنے لگے کہ اچھا، تم ایسے شخص کو آئیڈیل بنا کر پیش کر رہے ہو جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں!!

میری دوسری گزارش یہ ہے کہ انسانی طبائع اس قدر گوناگوں، تاریخی حالات اس قدر رنگا رنگ اور انسانی فیصلوں کے لیے بنیاد بننے والے نفسیاتی و واقعاتی عوامل اور مذہبی واخلاقی اصول اس قدر متنوع ہیں کہ ہر طرح کے افراد کے لیے ہر طرح کے حالات میں اپنے لیے لائحہ عمل متعین کرنے کا کوئی یک رنگ معیار اور کوئی بے لچک ضابطہ وضع کرنا ممکن ہی نہیں۔ مثلاً دیکھیے، انبیائے بنی اسرائیل میں ہمیں سیدنا سلیمان علیہ السلام جیسی شاہانہ جلال اور شان وشکوہ رکھنے والی شخصیات بھی نظر آتی ہیں جو قوم سبا کی ملکہ کی طرف سے بھیجے جانے والے قیمتی تحائف کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں اور ملکہ کے بذات خود میرے دربار میں حاضر ہونے سے کم تر کوئی بات قبول نہیں اور ان کی ایک دھمکی پر ملکہ سبا اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ان کے دربار میں حاضر ہو جانے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہے، جبکہ انھی انبیائے بنی اسرائیل میں سیدنا مسیح علیہ السلام بھی شامل ہیں جو اس دور میں پیدا ہوتے ہیں جب رومیوں کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی خود مختار حکومت کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا اور اس سوال کے جواب میں کہ کیا قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں، یہ فرما کر بنی اسرائیل کو رومی سلطنت کی اطاعت اور وفاداری کی تعلیم دیتے ہیں کہ ’’جو قیصر کا ہے، وہ قیصر کو اور جو خدا کا ہے، وہ خدا کو دو‘‘۔ بدیہی طور پر یہ حالات کا فرق ہے جو بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر کے لیے ایک طرح کے طرز عمل کا جبکہ اسی قوم کے ایک دوسرے پیغمبر کے لیے دوسری طرح کے طرز عمل کا جواز مہیا کرتا ہے۔

پھر یہ کہ کسی مخصوص صورت حال میں لائحہ عمل کی تعیین میں اذواق وطبائع اور زاویہ نگاہ کے فرق کے پیش نظر اجتہادی اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک تاریخی شخصیات اور ان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نکتے کی اہمیت غیر معمولی ہے اور اسے کسی حال میں نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں برصغیر میں جہاں علماء کی ایک بہت بڑی جماعت انگریزی حکومت کے ساتھ مصالحانہ روش اختیار کرنے کے خلاف تھی، وہاں سرسید احمد خان جیسے حضرات بھی موجود تھے جنھوں نے انگریزی سرکار کی وفاداری کا دم بھرنے اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم اس طرز فکر کی طرف مائل کرنے کو اپنا مقصد حیات قرار دے رکھا تھا۔ سرسید کے اس مسلک سے یقیناًسخت اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کے مخالفین کی زبان طعن ہمیشہ ان پر دراز رہی ہے، تاہم مولانا اشرف علی تھانوی ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’سید احمد بڑے حوصلے کا آدمی تھا، مگر انھوں نے خواہ مخواہ دین میں ٹانگ اڑا کر اپنے آپ کو بدنام کیا، ورنہ ان کو تو لوگ دنیا کا تو ضرور ہی پیشوا بنا لیتے۔ بڑے محب قوم تھے۔ دین میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے تھے۔ اسی سے نقصان ہوا۔ ……. یہ جو مشہور ہے کہ وہ انگریزوں کا خیر خواہ تھا، یہ غلط ہے بلکہ بڑا دانش مند تھا۔ یہ سمجھتا تھا کہ انگریز برسر حکومت ہیں۔ ان سے بگاڑ کر کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان سے مل کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، ج ۱۱، ص ۲۶۷۔ ۲۶۹)

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرسید کے زاویہ نظر کی تائید کرنے والے حضرات خود علماء کی صفوں میں بھی موجود تھے۔ ذرا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’اگر غور کر کے دیکھو تو فی الحقیقت جس زمانہ میں انگریز ہندوستان میں آتے ہیں، اس وقت اسلامی سلطنت ہندوستان میں برائے نام رہ چکی تھی اور پنجاب میں سکھوں کا نہایت تسلط ہو گیا تھا۔ اگر انگریز ان کا قلع قمع نہ کرتے تو آج تمام ہندوستان میں سکھوں کا ڈنکا بجتا۔ ان کا طرز حکومت جو کچھ تھا اور جو کچھ وہ اسلام اور اسلامیات کی مزاحمت کرتے تھے، وہ آپ سے مخفی نہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہندوستان پر ان کی سلطنت ہو جاتی تو آج مسلمانوں سے بھنگیوں اور چماروں کی طرح بیگار لی جاتی۔ میرے خیال میں تو خدا کی رحمت مسلمانوں پر ہوئی کہ انگریز آئے اور انھوں نے سکھوں کا قلع قمع کیا اور ایک مہذب سلطنت قائم ہو گئی جس نے مذہب کی آزادی کو اپنا اولیں فرض قرار دیا۔ یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کے دماغ سلطنت کے قابل نہ رہے تھے اور اگر عام مسلمانوں نے کچھ قلیل سی کوشش کی بھی ، کیونکہ تقدیر موافق نہیں تھی، کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔‘‘

یہ اقتباس، جس میں انگریزی حکومت کو ’’خدا کی رحمت‘‘ قرار دیا گیا ہے، انگریزی تہذیب سے مرعوب کسی تجدد زدہ شخص کی تحریر سے نہیں، حلقہ دیوبند کے نامور محدث اور سنن ابی داود کے شارح مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے ایک خط سے ماخوذ ہے۔ اس کا حوالہ دینے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ صورت حال کو سرسید کی نظر سے دیکھنے والے حضرات خود علماء کے اندر بھی موجود تھے اور اس زاویہ نظر کی تائید نہیں تو کم سے کم ان کی پوزیشن کو ہمدردی سے سمجھ کر انھیں ’’انگریز کا ایجنٹ‘‘ کہنے سے گریز کرنے والے تو تھے ہی، جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے سرسید مرحوم کے متعلق لکھا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر بات کا اپنا ایک محل ہوتا ہے اور وہ اپنے محل میں ہی اچھی لگتی اور جچتی ہے۔ پھر اس بات میں انسانی طبائع اور فہم کے لحاظ سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے کہ کون سا موقع غیرت وشجاعت اور عزم وہمت کے اظہار کا ہے اور کون سا حکمت اور تحمل سے کام لینے کا اور تدبیر سے زیادہ تقدیر پر بھروسہ کرنے کا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جب تک کسی واضح اخلاقی وشرعی اصول کی پامالی کا مسئلہ نہ ہو، ہم لوگوں کے لیے اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے طبائع کے لحاظ سے اپنی حکمت عملی خود متعین کرنے کا حق تسلیم کریں اور خواہ خواہ اپنے آپ کو ’’حکم‘‘ کے منصب پر فائز کرنا ضروری نہ سمجھیں۔

 تیسرا اور آخری نکتہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ الجزائری کی داستان حیات پر کائزر کی کتاب کوئی حرف آخر نہیں، بلکہ صرف ’’ایک‘‘ کاوش کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ کوئی بھی مصنف جب کسی شخصیت کی داستان حیات لکھتا ہے تو واقعات کی تحقیق اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں اپنے فکری پس منظر، ذاتی رجحانات وتعصبات اور پسند وناپسند سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ کائزر بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔ وہ ایک مغربی اور مسیحی پس منظر رکھنے والے مصنف ہیں اور بنیادی طور پر یہ کتاب بھی مغربی قارئین کے فکر ومزاج کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ان کا الجزائری کی شخصیت اور طرز فکر میں ایسے پہلو تلاش کرنا اور انھیں اجاگر کرنے کی کوشش کرنا جو رواداری اور وسعت نظر کے مغربی انداز فکر کے قریب تر ہوں، بدیہی طور پر قابل فہم ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود سے الجزائری کی دلچسپی کے تناظر میں ان کے افکار سے یہ تاثر لیا ہے کہ وہ وحدت ادیان یعنی سارے مذاہب کے یکساں طور پر برحق ہونے کے نقطہ نظر کے قائل تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک ایسا استنتاج ہے جس کی توثیق الجزائری کی اصل تحریرات اور افکار کی مراجعت کیے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے اسی تناظر میں کائزر کی کتاب کے مقدمے میں اپنا اختلافی نوٹ ان الفاظ میں درج فرمایا ہے کہ:

’’امیر عبد القادر الجزائری کو شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا پیروکار، ان کے علوم کا شارح اور ان کے فلسفہ وحدت الوجود کا قائل ہونے کی وجہ سے ان کے فکر کے ڈانڈے ’’وحدت ادیان‘‘ کے تصور سے ملانے کی کوشش کی گئی (جس کی جھلک جان کائزر کی زیر نظر کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے)، حالانکہ وحدت الوجود اور وحدت ادیان میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود کا مطلب وحدت ادیان ہرگز نہیں ہے۔‘‘

اس نوعیت کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اردو ترجمے پر نظر ثانی کرتے ہوئے مجھے کھٹکی تھیں، لیکن علمی دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ کائزر نے الجزائری کی شخصیت کو جیسے سمجھا اور پیش کیا ہے، اسے اسی طرح رہنے دیا جائے اور اس میں اپنے خیالات کی آمیزش نہ کی جائے۔ اب یہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے دوسرے محققین کا کام ہے کہ وہ الجزائری کی داستان حیات کے اصل مآخذ سے رجوع کریں اور اپنی تحقیق کے نتائج قارئین کے سامنے لائیں کہ علم وتحقیق کی دنیا میں پڑھنے والوں کی درست تر نتائج تک راہ نمائی کا طریقہ یہی ہے۔

مجھے امید ہے کہ اگر امیر عبد القادر الجزائری یا کسی بھی تاریخی شخصیت کے طرز فکر اور کردار کا مطالعہ ان گزارشات کو ملحوظ رکھ کر کیا جائے گا تو مطالعے کے نتائج حقیقت پسندی اور معروضیت سے قریب تر ہوں گے اور اس سے ہمیں اس شخصیت کا ایک بہتر اور متوازن تجزیہ کرنے میں مدد ملے گی۔

الجزائری کی داستان حیات: چند توضیحات

الجزائری کی داستان حیات: چند توضیحات

کوئی دو سال قبل مجھے امریکی مصنف جان کائزر کی ایک کتاب کے توسط سے انیسویں صدی میں فرانس کی استعماری طاقت کے خلاف الجزائر میں جذبہ حریت بیدا ر کرنے اور کم وبیش دو دہائیوں تک میدان کارزار میں عملاً داد شجاعت دینے والی عظیم شخصیت، امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت سے تفصیلی تعارف کا موقع ملا تو فطری طور پر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کی داستان حیات اور خاص طو رپر ان کے تصور جہاد سے پاکستان کی نئی نسل کو بھی آگاہی پہنچانی چاہیے تاکہ ہمارے ہاں شرعی جہاد کا مسخ شدہ اور شرعی اصولوں کے بجائے ہمارے اخلاقی، تہذیبی اور نفسیاتی زوال کی عکاسی کرنے والا جو تصور پروان چڑھ رہا ہے، اس کا کسی حد تک مداوا ہو سکے اور ماضی قریب کی تاریخ سے ایک ایسا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جس سے ہم عزم وہمت اور جرات وحوصلہ کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی، معروضیت اور بلند اخلاقی کا سبق بھی سیکھ سکیں۔ اس ضمن میں، مجھے ابتدا ہی سے اس بات کا پورا اندازہ تھا کہ امیر الجزائری کی شخصیت اور طرز جدوجہد سے حکمت وفراست اور اخلاقی اصولوں کی پاس داری کا جو نقشہ سامنے آتا ہے، ہمارے ہاں کا جہادی ذہن یقیناًاس سے بدکے گا اور رد عمل میں لازماً اس انداز کی کوششیں ہوں گی کہ اپنے پسندیدہ جہادی ہیروؤں کے مقابلے میں امیر کی شخصیت کی قدر وقیمت کو گھٹایا اور ان کی ذات کو دینی واخلاقی لحاظ سے مجروح کیا جا سکے۔ میرا یہ اندازہ درست ثابت ہوا ہے اور کراچی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار ’’ضرب مومن‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نے امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور ان کی داستان حیات سے متعلق جان کائزر کی کتاب کے اردو ترجمے کی پاکستان میں اشاعت کے حوالے سے، جس میں راقم الحروف کی سعی وکاوش بھی شامل رہی ہے، اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ مفتی صاحب نے اس حوالے سے بعض ’’خفیہ حقائق‘‘ سے قارئین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے جو وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں، اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان سے متعلق اپنی مختصر معروضات قارئین کے سامنے پیش کر دوں۔

پہلی بات کتاب کے اردو ترجمے کی اشاعت کے لیے لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’دار الکتاب‘‘ کا نام استعمال کرنے سے متعلق ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ راقم الحروف نے جان کائزر کی کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری‘‘ اور اس کے علاوہ اپنے مقالات کا مجموعہ ’’براہین‘‘ دار الکتاب کے مالکان سے اجازت لیے بلکہ انھیں پیشگی اطلاع دیے بغیر ’’جبراً‘‘ ان کے نام سے شائع کی ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ بدیہی طور پر مضحکہ خیز بھی ہے، کیونکہ اول تو ایک جانے پہچانے اور معروف ادارے کے ساتھ اس طرح کا کوئی ’’ہاتھ‘‘ کرنا ممکن ہی نہیں اور فرض کریں کہ ایسا کیا جائے تو بھی کتاب کی اشاعت کے بعد وہ ادارہ حقیقت حال کی وضاحت کرنے اور قانونی چارہ جوئی کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دار الکتاب کے مالک حافظ محمد ندیم صاحب کے ساتھ کافی عرصے سے راقم کے ذاتی مراسم کے علاوہ اشاعتی کاموں میں باہمی تعاون کا تعلق بھی ہے اور اس سے قبل بھی ہم ۲۰۰۷ء میں دینی مدارس کے نظام تعلیم سے متعلق دو کتابیں الشریعہ اکادمی اور دار الکتاب کے مشترکہ اہتمام میں شائع کر چکے ہیں، جبکہ اسی نوعیت کے دوسرے منصوبوں پر بھی مشورہ اور گفت وشنید کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ’’الجزائری‘‘ اور ’’براہین‘‘، دونوں کی اشاعت کے ضمن میں حافظ محمد ندیم صاحب کو پوری طرح اعتماد میں لیا گیا تھا اور ان کی پیشگی اجازت کے بعد ہی یہ کتابیں دار الکتاب کے نام سے شائع کی گئی تھیں اور اشاعت کے بعد سے اب تک دار الکتاب کے واسطے سے مسلسل قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔ البتہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ چونکہ مذکورہ کتب اور خاص طور پر ’’براہین‘‘ کی اشاعت اصلاً دار الکتاب کی تجویز نہیں تھی، اس لیے ان کے مندرجات سے ان کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔ دارالکتاب نے ان کتب کو شائع کرنے کی اجازت اتفاق رائے کے اصول پر نہیں، بلکہ دوستانہ مراسم کے تناظر میں رواداری کے اصول پر دی تھی جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ جو حضرات ان معروضات کی تصدیق کرنا چاہیں، وہ حافظ ندیم صاحب سے ان کے فون نمبر 0300-8099774 پر براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔

مفتی صاحب نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں میری دلچسپی اور سعی وکاوش کو اس انداز سے آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے جیسے انھوں نے کوئی انتہائی خفیہ ’’سازش‘‘ گہری صحافیانہ تحقیق کے بعد دریافت کی ہو، حالانکہ میں اس کتاب کے مصنف جان کائزر کے ساتھ رابطے، کتاب کے انگریزی متن پر نظر ثانی، اردو ترجمے کی ترتیب وتدوین اور پھر اس کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی دلچسپی اور کوششوں کی پوری تفصیل خود اپنے قلم سے ماہنامہ الشریعہ کے مارچ ۲۰۱۲ء کے شمارے میں لکھ چکا ہوں۔ مجھے جان کائزر کی کتاب سے امیر عبد القادر کی شخصیت کے متعلق پہلی مرتبہ علم ہوا اور میں نے ان کی داستان حیات سے اردو قارئین کو واقفیت بہم پہنچانے میں دلچسپی محسوس کی اور اس کے لیے بساط بھر جو کچھ کر سکا، کیا۔ یہ ایک بالکل کھلی ہوئی اور علانیہ بات ہے جس میں نہ سازش کا کوئی پہلو ہے اور نہ خفیہ منصوبہ بندی کا۔

مفتی صاحب نے لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقد ہونے والی تقریب کا ذکر بھی کیا ہے جس میں امریکی سفارت خانے کے ایک عہدے دار شریک ہوئے تھے۔ اس ضمن میں بھی بعض معلومات کی تصحیح ضروری ہے۔ یہ تقریب جان کائزر کی کتاب کے تعارف کے حوالے سے نہیں، بلکہ اس کی اشاعت سے بہت پہلے امیر عبد القادر کی شخصیت کے تعارف کے حوالے سے میزونٹ ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کا اہتمام جناب عبد القدیر خاموش نے کیا تھا جو ’’مسلم کرسچین انٹرفیتھ ڈائیلاگ‘‘ کے زیر عنوان بین المذاہب افہام وتفہیم کے حوالے سے اس طرح کی تقاریب منعقد کرتے رہتے ہیں۔ میں نے اس تقریب میں نظامت کی ذمہ داری انجام نہیں دی تھی، بلکہ محض امیر کی شخصیت کے حوالے سے ایک لیکچر دیا تھا۔ امریکی سفارت خانے کے ایک عہدے دار (جن کا نام اور منصب مجھے بالکل یاد نہیں) اس میں مہمان خصوصی نہیں تھے، بلکہ مختصر دورانیے کے لیے شریک ہوئے تھے۔ جہاں تک اس طرح کی تقاریب میں شرکت کا تعلق ہے تو تحفظاتی ذہن رکھنے والے حضرات یقیناًاس پر معترض ہو سکتے ہیں اور اس کے ڈانڈے یہود وہنود کی خفیہ سازشوں سے بھی جوڑ سکتے ہیں، لیکن ایسی تقاریب جن کا موضوع سخن مختلف مذاہب کی باہمی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہو اور خاص طور پر ان کا مقصد اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، ان میں غیر ملکی حکومتوں کے نمائندوں کی شرکت کسی بھی طرح کوئی ناقابل فہم بات نہیں، بلکہ اس نوعیت کی تقریبات میں ہمارے ہاں کا عام معمول ہے۔ اس زاویہ نظر سے کم از کم میں ایسی تقریبات میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اور نہ اس پر کسی قسم کی معذرت خواہی یا صفائی پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔

مفتی صاحب نے امیر عبد القادر کی شخصیت کے بارے میں بھی اپنے منفی تاثرات کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کے اس منفی تاثر کی بنیاد امیر عبد القادرکا ’’شکست خوردہ‘‘ جہاد ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ امیر عبد القادر نے کم وبیش سولہ سال تک فرانسیسی استعمار کے خلاف میدان کارزار میں سرگرم رہنے کے بعد جب یہ دیکھا کہ پوری الجزائری قوم رفتہ رفتہ فرانسیسی کیمپ کا حصہ بن چکی ہے اور ان کے ساتھ بس چند سو کی تعداد پر مشتمل جاں نثار ساتھیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت رہ گئی ہے تو انھوں نے اپنی جماعت کو اس بے حاصل کشمکش کی نذر کرنے کے بجائے فرانس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی جماعت کو بحفاظت جلا وطن کر دیے جانے کی شرط پر فرانس کے ساتھ مصالحت کر لی۔ امیر کی اس حکمت عملی سے اختلاف کرنے والے اختلاف کر سکتے ہیں اور ہر قیمت پر لڑتے رہنے کو ’’عزیمت‘‘ کا عنوان دے کر جہاد کی آئیڈیل صورت بھی قرار دے سکتے ہیں، لیکن یہ حقیقت نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اسلامی تاریخ میں اس طرز عمل کے نمونے بھی موجود ہیں جو امیر الجزائری نے اختیار کیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک جنگ میں پے در پے شکست سے دوچار ہونے کے بعد جب اپنے ساتھیوں کو بحفاظت میدان جنگ سے نکال کر واپس مدینہ منورہ لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کی تحسین فرمائی تھی۔ خود ہمارے ہاں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد بعض اکابر نے جلا وطنی اختیار کر لی تھی اور دوسروں نے جنگ سے کنارہ کش ہو کر تعلیم وتدریس کے میدان کا انتخاب کر لیا تھا اور اس کے بعد سے، تحریک ریشمی رومال کے استثنا کے ساتھ، دیوبندی تحریک نے بالعموم انگریزی حکومت کے ساتھ تصادم کے بجائے پرامن سیاسی جدوجہد کا طریقہ ہی اختیار کیے رکھا ہے۔

یہ معروضی صورت حال میں مناسب حکمت عملی کے انتخاب کا مسئلہ ہے جس میں وہی فریق بہتر فیصلہ کر سکتا ہے جو اْس صورت حال میں کھڑا ہو۔ یہ کوئی ایسا جرم نہیں کہ اس پر مطعون کرتے ہوئے امیر عبد القادر کو نہ صرف ’’یہود کا گماشتہ‘‘ قرار دے دیا جائے، بلکہ ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بھی بے بنیاد الزامات عائد کرنے کی کوشش کی جائے۔

مفتی صاحب کی طرف سے امیر کو ’’یہود کا گماشتہ‘‘ قرار دینے کی بنیاد اس نکتے پر ہے کہ انھوں نے ایک دور میں فری میسن تنظیم کی رکنیت قبول کر لی تھی۔ یہ بات درست ہے اور کوئی ڈھکی چھپی نہیں، بلکہ معلوم ومعروف بات ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ امیر نے یہ رکنیت جس حسن تاثر اور جس اعلیٰ جذبے کے تحت قبول کی تھی، بعد میں اس کے حوالے سے عدم اطمینان ہونے پر انھوں نے اس سے علیحدگی بھی اختیار کر لی تھی۔ افسوس ہے کہ مفتی صاحب نے جان کائزر کی کتاب سے وہ اقتباسات تو نقل کر دیے ہیں جو فری میسن سے وابستگی کی تفصیلات بتاتے ہیں، لیکن انھی صفحات پر موجود یہ اطلاع انھوں نے کمالِ دیانت سے حذف کر دی ہے کہ انھوں نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ پھر یہ کہ فری میسن سے وابستگی ان کی زندگی کے آخری دور میں دمشق کے قیام کے دوران کا واقعہ ہے، جبکہ فرانس کے خلاف جہاد اور پھر صلح کے معاملات اس سے کئی دہائیاں پہلے گزر چکے تھے جب امیر کو فری میسن کے بارے میں سرے سے کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ اس لیے جہاد سے دست برداری کے معاملے میں ان کے طرز عمل کو ان کے ’’یہودی گماشتہ‘‘ہونے سے وابستہ کرنا کسی بھی منطق کی رو سے درست نہیں ہو سکتا۔

مفتی صاحب نے امیر عبد القادر کو ’’ماڈرن جہاد‘‘ کا نمائندہ ثابت کرنے کے لیے یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ ان کی تعریف وتوصیف میں اہل مغرب رطب اللسان ہیں، ان کے نام پر امریکہ کی ریاست Iowa میں ایک قصبے کو موسوم کیا گیا ہے اور وہاں کے پبلک اسکولوں میں طلبہ کو امیر کی شخصیت سے واقف کرانے کے لیے ایک مستقل تعلیمی پروگرام چل رہا ہے۔ مفتی صاحب کا سوال یہ ہے کہ آخر ایک ’’سچے مجاہد‘‘ کے ساتھ اہل مغرب اس طرح کا تعلق خاطر کیونکر رکھ سکتے ہیں؟

یہ سوال اہل مغرب کے ہاں امیر کی مقبولیت کے اصل پس منظر کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ اہل مغرب کے ہاں امیر کی تکریم وتعظیم کا سبب ان کا ’’مجاہد‘‘ ہونا نہیں، بلکہ ایک تو ان کا وہ اخلاقی طرز عمل ہے جو انھوں نے فرانسیسی قیدیوں کی دیکھ بھال اور ان کے جسمانی ومذہبی حقوق کے احترام کے حوالے سے اختیار کیا اور دوسرا بلکہ اصلی سبب ان کا اور ان کے ساتھیوں کا وہ جرات مندانہ کردار ہے جو انھوں نے ۱۸۶۰ء میں دمشق میں مسلم مسیحی فسادات کے موقع پر بے گناہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے مشتعل ہجوم سے، جو ان سب کو تہہ تیغ کر دینا چاہتا تھا، بچانے کے لیے ادا کیا تھا۔ درحقیقت امیر کا یہی وہ کردار ہے جس نے اس وقت کے نمایاں ترین مغربی قائدین اور اخبارات وجرائد کو ان کی تعریف میں یک زبان کر دیا اور انھیں مغرب میں اعلیٰ مذہبی اخلاقیات کے ایک مجسم نمونے کے طور پر جانا جانے لگا۔ امریکہ کی ریاست Iowa میں ایک قصبے کو ان کے نام پر موسوم کرنے اور طلبہ کو ان کی شخصیت سے متعارف کرانے کا پس منظر یہی ہے۔ میرے نزدیک اس پہلو سے امیر کی شخصیت نہ صرف آج کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے، بلکہ اہل مغرب کے سامنے اسلام کے تصور جہاد کے درست تعارف کے لیے بھی ایک گراں قدر اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ افسوس ہے کہ ہم دعوتی ذہن کے تحت ان جیسی شخصیت کی قدر وقیمت محسوس کرنے کے بجائے نفسیاتی شدت احساس کے زیر اثر انھیں مجروح کرنے اور ان کے مقابلے میں فکری واخلاقی بونوں کا امیج بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مفتی صاحب نے امیر الجزائری پر ’’حد سے بڑھی ہوئی شہوت پرستی‘‘ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ یہاں بھی ، افسوس ہے کہ انھوں نے سخت غیر اخلاقی طرز عمل اختیار کیا ہے۔ انھوں نے جان کائزر کی کتاب سے امیر سے میل ملاقات رکھنے والی ایک مغربی خاتون جین ڈگبی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ امیر کے حرم میں پانچ بیویاں تھیں، لیکن حاشیے میں مصنف کا یہ نوٹ نظر انداز کر دیا ہے کہ جین ڈگبی کی اس اطلاع کی کسی دوسرے ذریعے سے تصدیق نہیں ہوتی اور یہ کہ جین کا یہ بیان محض قیاس آرائی بھی ہو سکتا ہے۔ مفتی صاحب نے مزید ستم یہ کیا ہے کہ خود جین ڈگبی کو، جو امیر کی مجلسوں میں شریک ہونے اور ان سے قریبی سماجی تعلقات رکھنے والے بہت سے مغربی افراد میں سے ایک تھی، امیر کے ساتھ ناجائز تعلقات میں ملوث دکھانے کی کوشش کی ہے۔ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ استنتاج ایک منفی زاویہ نظر سے بعض معلومات کو پڑھنے کا نتیجہ ہے یا اس میں بالقصد اتہام طرازی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ حقیقت حال جو بھی ہو، بہرحال یہ ایک نہایت افسوس ناک طرز تحریر ہے جسے میں کسی تردد کے بغیر سطحی اور پراپیگنڈا صحافت کا ایک نمونہ قرار دوں گا۔ قارئین، کتاب کے متعلقہ حصوں کے مطالعے سے خود معلوم کر سکتے ہیں کہ نہ تو مصنف کے پیش نظر امیر اور جین ڈگبی کے مابین ناجائز تعلقات کی نشان دہی ہے اور نہ درج کردہ معلومات سے استدلال کے کسی بھی اصول کے تحت یہ نتیجہ یا اس کی طرف کوئی اشارہ ہی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں، امیر کی زندگی میں اس قسم کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو تو بھی ایسی کسی بات کا زیر نظر کتاب میں درج ہونا خود مفتی صاحب کے مفروضے کی رو سے بھی ناقابل فہم ہے، کیونکہ اگر یہ کتاب کسی سازش کے تحت مسلمانوں میں ’’جعلی‘‘ مجاہد کو ’’حقیقی‘‘ اسلام کے نمائندے کے طور پر متعارف کروانے کے لیے لکھی گئی ہے تو اس کا مصنف اتنا بے وقوف تو نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں میں اخلاقیات کے تصور سے بالکل ناواقف ہو اور امیر کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو کتاب میں بیان کر دے جس سے کتاب کا سارا مقصد ہی سرے سے فوت ہو جاتا ہو۔ انسان بعض دفعہ سازشی مفروضوں کے گھوڑے پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ کامن سینس کو بھی پس پشت ڈال دیتا اور بالکل سامنے کی چیزوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ مفتی صاحب کو اس اتہام طرازی کے لیے روز قیامت کو اللہ تعالیٰ اور امیر عبد القادر کے سامنے جواب دہی نہ کرنی پڑے۔

آخری گزارش کے طور پر یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی شخص کے آرا وافکار یا حکمت عملی سے اختلاف کوئی ناپسندیدہ بات نہیں، لیکن اختلاف کا حسن یہی ہے کہ آپ اخلاقی اصولوں اور آداب اختلاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے تنقید کریں۔ تحریر میں سطحی اور گمراہ کن ہتھکنڈے استعمال کر تے ہوئے سنسنی کی فضا پیدا کر کے وقتی طور پر تو قارئین میں مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن اس طرز تحریر سے وجود میں آنے والے لٹریچر کی عمر اس دنیا میں بھی زیادہ نہیں ہوتی اور آخرت تو ہے ہی اسی لیے کہ وہ دنیا میں لوگوں کی نظروں میں ’مزین‘ کر دیے جانے والے اعمال کی قلعی کھول کر رکھ دے!! اللہم احسن عاقبتنا فی الامور کلہا واجرنا من خزی الدنیا وعذاب الآخرۃ۔

عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف

محمد عمار خان ناصر


عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف

(ایک تنقید کا جائزہ)

دینی مدارس کے طلبہ واساتذہ کے متعلق عام طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ وہ جدید علوم سے واقفیت حاصل نہیں کرتے اور نتیجتاً دور جدید کے ذہنی مزاج اور عصری تقاضوں کے ادراک سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن میرے نزدیک اس طبقے کا زیادہ بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ خود اپنی علمی روایت، وسیع علمی ذخیرے اور اپنے اسلاف کی آرا وافکار اور متنوع تحقیقی رجحانات سے بھی نابلد ہے۔ اس علمی تنگ دامنی کے نتیجے میں ا س طبقے میں جو ذہنی رویہ پیدا ہوتا ہے، وہ بڑا دلچسپ اور عجیب ہے۔ یہ حضرات اپنے محدود علمی ماحول میں جو باتیں سنتے اور مطالعے کے لیے اپنے اساتذہ کی طرف سے بڑی احتیاط سے منتخب کردہ کتب میں جو چیزیں پڑھتے ہیں، اس کے علاوہ انھیں ہر چیز گمراہی اور بے راہ روی محسوس ہوتی ہے اور یہ غیر شعوری طو رپر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی باقاعدہ ذہن سازی کی جاتی ہے۔ میرا بارہا کا تجربہ ہے کہ کوئی علمی بات یا نکتہ اس ماحول کے تربیت یافتہ حضرات کے سامنے پیش کیا جائے تو پہلے کہیں پڑھا یا سنا نہ ہونے کی وجہ سے ان کا فوری تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ تو ایک اکابر سے ہٹ کر دین میں ایک ’’نئی بات‘‘ کہی جا رہی ہے اور اگر معاملہ ذرا حساسیت کا حامل ہو تو فوراً اس پر گمراہی اور ضلالت کے فتوے بھی لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس امکان کی طرف ان کا ذہن متوجہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسی کسی بات پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے سے پہلے ماضی کے علمی ذخیرے کی مراجعت کرتے ہوئے اس بات کی تحقیق کر لی جائے کہ ہم نے جو بات اب تک پڑھ یا سن رکھی ہے، اس سے مختلف بھی کوئی رائے اس ذخیرے میں ملتی ہے یا نہیں۔ یوں یہ حضرات اپنے ارد گرد کے چند گنے چنے اکابر سے سنی ہوئی باتوں کو ہی علم کی کل کائنات سمجھتے اور کوئی بھی نئی بات سامنے آنے پر، اپنے اپنے حوصلے اور وسعت دَہن کے مطابق، اس پر گمراہی، تحریف اور تاویل باطل وغیرہ کے فتوے جڑنے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے۔

اس علمی اُتھلے پن کی ایک دلچسپ مثال راقم الحروف پر کی جانے والی بعض حالیہ تنقیدوں میں سامنے آئی ہے۔ میں نے کافی عرصہ قبل مسجد اقصیٰ کی بحث کے ضمن میں عہد نبوی کی دعوتی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا کہ:

’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں تدبیری لحاظ سے بھی ایسی حکمت عملی اختیار فرمائی کہ اہل کتاب میں مسلمانوں کے ساتھ قرب و اشتراک کا احساس پیدا ہو اور انبیاے بنی اسرائیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مابین اتحاد اور یگانگت کے پہلو اجاگر ہو جائیں۔ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تدبیری کوششوں کی وجہ سے اہل کتاب کو تعصبات اور نفسیاتی الجھنوں سے صاف ماحول میں پوری ذہنی آزادی کے ساتھ آپ کی دعوت کو سمجھنے کا موقع ملا اور آپ کے دعواے نبوت کی حقانیت ان پر پوری طرح واضح ہو گئی، چنانچہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، البتہ وہ آپ کو صرف بنی اسماعیل کا نبی قرار دیتے ہوئے خود کو آپ پر ایمان لانے کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے تھے۔‘‘ (براہین ص ۳۸۶، ۳۹۸)

اقتباس کے آخری خط کشیدہ جملے کے ماخذ کے طور پر راقم نے سورۂ بقرہ کی آیات ۷۶ اور ۹۱ کا حوالہ دیا ہے۔ یہ آیات، بالترتیب، حسب ذیل ہیں:

وَإِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا، وَإِذَا خَلاَ بَعْضُہُمْ إِلَیَ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَہُم بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْْکُمْ لِیُحَآجُّوکُم بِہِ عِندَ رَبِّکُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
’’اور جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لائے۔ اور جب باہم تنہا ہوتے ہیں تو (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ کیا تم ان لوگوں کو وہ باتیں بتا دیتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ یہ اس کے ذریعے سے تمھارے رب کے ہاں تمھارے خلاف حجت پیش کر سکیں؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘

وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَیَکْفُرونَ بِمَا وَرَاءَ ہُ
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا ہے، اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر اتارا گیا اور اس کے علاوہ (اللہ کے اتارے ہوئے باقی کلام) کا انکار کر دیتے ہیں۔‘‘

گویا میری رائے میں مذکورہ دونوں آیتوں میں یہود کے کسی منافق گروہ کا نہیں، بلکہ اس مخصوص گروہ کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا نبی تسلیم کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کر کے خود کو آپ کی پیروی سے مستثنیٰ قرار دیتا تھا کہ آپ کی بعثت خاص طور عرب کے امیوں کی طرف ہوئی ہے، جبکہ یہود تورات کی پیروی کو چھوڑ کر آپ پر ایمان لانے کے مکلف نہیں ہیں۔ پہلی آیت میں ’قَالُوا آمَنَّا‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ گروہ مسلمانوں کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، اللہ کا رسول ہونے کا اقرار کرتا تھا جس پر اسے اپنے ہم مذہبوں کی طرف سے زجر وتوبیخ کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جبکہ دوسری آیت میں ’نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا‘ کا جملہ اس گروہ کے اس استدلال کو واضح کرتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہوئے خود کو صرف تورات کی اتباع کا مکلف تصور کرتے اور اس سے ہٹ کر قرآن مجید کی اتباع قبول کرنے کا پابند نہیں سمجھتے تھے۔

میری اس رائے پر نقد کرتے ہوئے ایک تو اس کو یہ مفہوم پہنایا گیا ہے کہ جیسے میں یہود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار وتکذیب کے جرم سے بری ثابت کرنے اور یوں ان کی ایک خوبی اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، حالانکہ اوپر نقل کردہ اقتباس سے صاف واضح ہے کہ یہاں مقصود یہود کی کوئی خوبی یا ان کی ایمان داری کا وصف بیان کرنا نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکمت عملی کا یہ پہلو اجاگر کرنا مقصود ہے کہ آپ نے حق بات کو اپنے مخاطبین تک پہنچانے اور ان پر اتمام حجت کرنے کا ایسا حکیمانہ اسلوب اختیار کیا کہ اس کے نتیجے میں یہود کے ایک گروہ کے لیے آپ کی صریح تکذیب ممکن نہ رہی اور انھیں یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
بہرحال، اس اقتباس میں کہی گئی یہ بات کہ عہد رسالت کے بعض یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسماعیل کی طرف اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہوئے خود کو آپ کی اتباع سے مستثنیٰ تصور کرتا تھا، صاحب تنقید کے لیے ایک نئی بات ہے اور اتنی نئی ہے کہ اس کے لیے انھیں ’’تحریف‘‘ سے کم تر کوئی عنوان نہیں سوجھا۔ ملاحظہ فرمائیں:

’’احقر نے جب وہ آیت کھولی جس سے خان صاحب نے یہ استدلال کیا تو وہ حزن انگیز انکشاف ہوا جس کا اوپر تذکرہ ہوا۔ میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ کوئی بھی صاحب علم بقائمی ہوش وحواس اس آیت کا یہ متضاد ترین مطلب لے سکتا ہے۔ یہ یقیناً’’یحرّفون الکلم عن مواضعہ‘‘والی برادری کا کارنامہ ہے۔ آپ بھی یہ آیت پڑھیے جس میں قرآن کریم یہود کے کفرونفاق پر حجت قائم کررہا ہے اور برملا اطلاع دے رہا ہے کہ ان کا ایمان کا دعویٰ خالص فریب ونفاق ہے اور خان صاحب اسی آیت سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تھے۔‘‘ (’’بولتے نقشے‘‘، ہفت روزہ ضرب مومن،)

دوسری آیت کے حوالے سے فرمایا گیا ہے:

’’قرآن پاک کی یہ آیت بھی۔۔۔ جس سے خان صاحب نے قارئین کو یہ باور کرانا چاہا کہ یہود آپ کو نبی سمجھتے تھے لیکن صرف بنی اسماعیل کا۔۔۔ یہود کے کفر کی صریح گواہی دے رہی ہے اور صاف بتارہی ہے کہ وہ نہ بنی اسماعیل میں آنے والے نبی کو مانتے ہیں نہ بنی اسرائیل میں آنے والے انبیائے کرام کو، ورنہ انہیں قتل کیوں کرتے؟ گویا قرآن پاک کی جو آیت یہود کے جس دعوے کی تردید دلائل کے ساتھ کررہی ہے، خان صاحب اسی دعویٰ کی تصدیق اسی آیت سے کرنے کی سعی فرمارہے ہیں۔‘‘

یہاں دو نکتے توضیح طلب ہیں:
ایک یہ کہ کیا عہد رسالت میں یہود کا کوئی ایسا گروہ موجود تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تو تسلیم کرتا ہو، لیکن خود کو آپ پر ایمان لانے سے مستثنیٰ قرار دیتا ہو؟
دوسرا یہ کہ کیا سورۂ بقرہ کی محولہ بالا آیات میں اسی گروہ کی طرف اشارہ ہے؟
اگر صاحب تنقید ان دونوں نکتوں کی تحقیق کے لیے نادر ونایاب مآخذ کی نہیں، بلکہ صرف تفسیر طبری اور صحیح بخاری کی مراجعت کر لیتے تو اس علمی نکتے سے ان کی ذہنی اجنبیت کم سے کم اتنی نہ رہتی کہ وہ اس پر سیدھا سیدھا ’’تحریف‘‘ کا الزام عائد کر دیں۔

صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد یہودی سے (جو اس وقت تک اسلام نہیں لایا تھا) یہ پوچھا کہ کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ جواب میں ابن صیاد نے کہا:
اشہد انک رسول الامیین (بخاری، رقم ۵۸۲۱)
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں۔‘‘
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
فیہ اشعار بان الیہود الذین کان ابن صیاد منہم کانوا معترفین ببعثۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لکن یدعون انہا مخصوصۃ بالعرب (فتح الباری، ۶/۱۱۹)
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی، جن سے ابن صیاد کا تعلق تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا اعتراف کرتے تھے، لیکن ساتھ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ آپ کی نبوت اہل عرب کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘

جہاں تک قرآن مجید کی مذکورہ آیات میں اس گروہ کی طرف اشارے کا تعلق ہے تو اگرچہ مفسرین نے عام طور پر ’قالوا آمنا‘ کو یہود میں سے ایک منافق گروہ کا مقولہ قرار دیا ہے جو جو بظاہر اہل ایمان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کرتا تھا، لیکن امام طبری نے اسی آیت کی ایک دوسری تفسیر کے طور پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا درج ذیل قول بھی نقل کیا ہے:

عن ابن عباس: و اذا لقوا الذین آمنوا قالوا آمنا ای بصاحبکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکنہ الیکم خاصۃ (طبری، سورۃ البقرۃ، آیت ۷۶)
’’ابن عباس سے و اذا لقوا الذین آمنوا کی تفسیر یہ مروی ہے کہ یہودی یہ کہتے تھے کہ ہم تمھارے صاحب، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں (یعنی انھیں نبی تسلیم کرتے ہیں)، لیکن ان کی بعثت خاص طور پر تمھاری (یعنی اہل عرب کی) طرف ہوئی ہے۔‘‘

میری طالب علمانہ رائے میں بقرہ کی آیت ۹۱ میں ’نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَیَکْفُرونَ بِمَا وَرَاءَ ہُ‘ کے الفاظ بھی اسی گروہ کے موقف کو بیان کرتے ہیں، نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا مطلقاً انکار کرنے والے یہود کے موقف کو۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ آیت میں آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ کے الفاظ سے انھیں قرآن مجید سمیت اللہ کی تمام کتابوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے جواب میں ’نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا‘ کا جملہ اسی صورت میں موزوں ہو سکتا ہے جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بالکلیہ انکار نہ کرتے ہوں، کیونکہ اگر وہ قرآن مجید کو سرے سے اللہ کا نازل کردہ کلام ہی تسلیم نہ کرتے تو یہ کہتے کہ ہم تو اللہ کے اتارے ہوئے ہر کلام پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن چونکہ قرآن منزل من اللہ نہیں ہے، اس لیے ہم اس پر ایمان نہیں لاتے۔ اس کے بجائے ان کا یہ کہنا کہ ہم تو بس اپنی طرف نازل کردہ کلام پر ایمان لاتے ہیں، میری ناقص رائے میں یہ مفہوم رکھتا ہے کہ اللہ کے اتارے ہوئے ہر کلام کی پیروی ہم پر لازم نہیں، بلکہ ہم صرف اس کلام یعنی تورات کی اتباع کے پابند ہیں جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم