جمہوریت، جہاد اور غلبہ اسلام

جمہوریت، جہاد اور غلبہ اسلام

(ایک علمی وفکری مذاکرہ کی روداد)

اسلام آباد میں قائم، ملک کے معروف تحقیقی ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) نے حالیہ چند مہینوں میں اسلام، جمہوریت او رآئین پاکستان کے موضوع پر لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں متعدد علمی وفکری مذاکروں کا اہتمام کیا اور ملک بھر سے مختلف حلقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے اہل فکر ودانش کو موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کے لیے جمع کیا۔ ان نشستوں کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ نائن الیون جیسے واقعات کے تناظر میں جدید جمہوری اصولوں پر قائم نظم حکومت کو خلاف شریعت قرار دے کر ریاستی نظام کو بزور قوت تبدیل کرنے کی جو سوچ پیدا ہوئی ہے، اس کے فکری مقدمات اور اہم اعتراضات کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ نفاذ اسلام کے لیے جمہوری اصولوں کے تحت پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے مذہبی طبقات اس ساری صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ منتظمین کی طرف سے اس کی بھی کوشش کی گئی کہ ان مذاکروں میں مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے عناصر کی بھی نمائندگی ہو اور دونوں نقطہ ہائے نظر کو باہمی مکالمہ کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے، تاہم اس میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی اور منعقدہ مذاکروں میں زیادہ تر مین اسٹریم کے نمائندہ مذہبی اسکالرز نے ہی حصہ لیا۔ کچھ عرصہ قبل مذکورہ ادارے نے جدید مسلم ریاستوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے موضوع پر بھی اسی نوعیت کے مذاکروں کی ایک سیریز منعقد کی تھی جس میں بڑی وقیع اور اہم بحثیں سامنے آئیں، تاہم اس موقع پر بھی عمومی صورت حال یہی رہی اور جمہوری نظم ریاست سے اختلاف رکھنے والے عناصر کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی۔

بہرحال اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان کے موضوع پر حالیہ سلسلہ مجالس کی آخری نشست ۲۲ ستمبر ۲۰۱۴ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر قبلہ ایاز، خورشید احمد ندیم، صاحبزادہ امانت رسول، مولانا احمد بنوری، مولانا اعجاز احمد صمدانی، مولانا محمد شفیع چترالی، ڈاکٹر رشید احمد، مولانا یاسین ظفر، جناب ثاقب اکبر، مولانا عبد الحق ہاشمی اور راقم الحروف نے شرکت کی۔ منتظمین کی طرف سے راقم کو ان تمام مذاکروں کی روشنی میں ابھر کر سامنے آنے والے متفقہ نکات مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور آخری اجلاس میں راقم کے مرتب کردہ درج ذیل نکات کو ’’متفقہ سفارشات‘‘ کی حیثیت سے منظور کیا گیا:

’’۱۔ اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ مسلمان ریاست میں کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ البتہ اجتہادی امور میں اجتماعی بصیرت اور غور وفکر سے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مجلس قانون ساز کا تصور بنیادی طور پر اسلام کے خلاف نہیں ہے۔

۲۔ اسلام کا سیاسی نظام شورائیت کے اصول پر مبنی ہے۔ مطلق العنان بادشاہی اور آمریت کا طرز حکومت اسلامی تصورات کے خلاف ہے۔

۳۔ حکمرانوں کو رائے عامہ کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ تاہم حکمران کے انتخاب کا کوئی لگا بندھا ضابطہ شریعت میں نہیں بتایا گیا۔ خلفائے راشدین کا انتخاب الگ الگ طریقوں سے کیا گیا۔ اس لیے بدلتے ہوئے حالات میں اس مقصد کے لیے کوئی بھی موزوں طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔

۴۔ اسلام کی رو سے امیدوار کا انتخاب ایمان، عمل صالح، اہلیت وصلاحیت اور دیانت وامانت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جیساکہ آئین پاکستان کی شق ۶۲ و ۶۳ میں بھی اس کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان میں نظام انتخابات کی اصلاح کے ضمن میں اقدامات وتجاویز کو قومی سطح پر موضوع بحث بنایا جائے اور مروجہ طریق کار کے ساتھ دیگر متبادل طریقہ ہائے کار مثلا متناسب نمائندگی وغیرہ کو بھی زیر غور لایا جائے۔

۵۔ ریاستی سطح پر طے ہونے والے اجتماعی معاملات میں اختلافات ونزاعات کے تصفیے کے لیے اکثریت کی رائے کو بنیاد بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اقلیت کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے تصورات اکثریت پر مسلط کرے۔ یہی اصول شریعت کی تعبیر وتشریح کے باب میں بھی لاگو ہوگا اور اس کا فیصلہ منتخب پارلیمان کی سطح پر ہوگا۔
۶۔ اسلام اگرچہ مختلف سیاسی گروہوں کے وجود کی نفی نہیں کرتا، لیکن وہ اس پر اصرار کرتا ہے کہ حکمرانوں پر تنقید یا ان سے اختلاف کا مقصد نظام حکومت کی بہتری، انسانی حقوق کا تحفظ اور رفلاح عامہ ہونی چاہیے۔ اسلام دھڑے بندی اور اختلاف برائے اختلاف کے بجائے باہمی تعاون اور خیر خواہانہ محاسبہ وتنقید کو حکمرانوں اور رعایا کے باہمی تعلقات کی بنیاد تصور کرتا ہے۔

۷۔ پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے جو علماء کی تائید سر مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں قرارداد مقاصد دیباچے کے طور پر موجود ہے ، قوانین کو قرآن وسنت کے تابع رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے اور خلاف شریعت قوانین کی تبدیلی کے لیے پورا طریق کار وضع کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت قومی اتفاق کی ہے جسے تمام نمائندہ طبقات کا اعتماد حاصل ہے۔

۸۔ آئین میں دی گئی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ملک کے عملی نظام سے متعدد غیر اسلامی امور کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ اس پہلو پر خاص توجہ دینی چاہیے، کیونکہ یہ آئین میں کیے گئے عہد کا بھی تقاضا ہے اور حکومتوں کی طرف سے عملی کوتاہی اور تساہل کی وجہ سے فی نفسہ آئین اور دستور کے متعلق بھی منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔

۹۔ ملکی قوانین کی شریعت کی روشنی میں اصلاح کے لیے آئین ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو غور وخوض اور بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دستوری طور پر کونسل کی سفارشات کا پارلیمان کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہو۔

۱۰۔ دستور پاکستان کی حیثیت ایک قومی معاہدے کی ہے جس کی پاس داری اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام فریقوں پر ضروری ہے۔ البتہ دستور کی ہیئت میں کسی تبدیلی یا متبادل تجاویز کے حوالے سے بحث ومباحثہ کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ نہ تو دستور کی کسی شق سے نظری اختلاف کو غداری قرار دینا چاہیے اور نہ عملی طور پر دستور سے ہٹ کر بزور قوت ملکی نظام میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

۱۱۔ بعض طبقات کی طرف سے اسلامی اقدار کے منافی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے رد عمل پیدا ہوتا ہے جو بسا اوقات تشدد پر منتج ہوتا ہے۔ اس رجحان کے سد باب کے لیے غیر اسلامی تصورات اور سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور مثبت اقدار کے فروغ کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۱۲۔ مسلمان معاشروں میں جمہوریت کا وہی تصور قابل قبول ہو سکتا ہے جو اسلامی نظام اقدار اور ضابطہ حیات سے ہم آہنگ ہو۔ مغربی قوتوں کو چاہیے کہ وہ مسلمان معاشروں کی مذہبی وثقافتی حساسیتوں اور ترجیحات کو پیش نظر رکھیں اور معاشرت کی تشکیل یا انتقال اقتدار کے حوالے سے مسلم رائے عامہ کے اکثریتی وجمہوری فیصلوں کا احترام کریں۔

۱۳۔ ایک نظریاتی اسلامی ریاست اور ایک قومی ریاست کی ترجیحات میں فرق کے حوالے سے پاکستان کے مختلف طبقات میں فکری ابہامات پائے جاتے ہیں جنھیں فکری سطح پر موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں علمی وتحقیقی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۱۴۔ نفاذ اسلام کے لیے غیر جمہوری اور عسکری جدوجہد پر یقین رکھنے والے طبقات کے ساتھ اسلام اور جمہوریت نیز جہاد اور غلبہ دین جیسے اساسی تصورات کے حوالے سے براہ راست مکالمے کا اہتمام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں موجود غلط فہمیوں اور ابہامات کا ازالہ کیا جا سکے۔‘‘

مذکورہ سفارشات کا آخری نکتہ خاص طور پر راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں اٹھایا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ جو ذہن ’’جہاد‘‘ کے تصور کے زیر اثر پاکستان کے ریاستی نظام کے خلاف برسرپیکار ہے، اس کے ساتھ مکالمے کے لیے بنیادی سوالات وہ نہیں ہیں جن کا مذکورہ سفارشات میں جواب دیا گیا ہے۔ اس ذہن کے فکری مقدمات اور اس طرز جدوجہد کے محرکات کو درست طور پر سمجھنے اور اس کے ساتھ مکالمہ کرنے کے لیے محدود سطح کی آئینی وقانونی یا فقہی بحثیں غیر موثر اور غیر متعلق ہیں۔ اس کے لیے اعلیٰ فلسفیانہ اور فکری سطح پر تاریخ وتہذیب سے متعلق چند اساسی سوالات کو موضوع بحث بنانا ہوگا اور ایسی بحثیں اٹھانا ہوں گی جو مذہبی ذہن کو تاریخ انسانی میں اسلام کے کردار اور غلبہ دین جیسے تصورات پر نئے پہلوؤں سے غور کرنے میں مدد دیں۔ راقم نے اس ضمن میں غور وفکر اور مکالمہ کے لیے جن سوالات ومباحث کی طرف توجہ دلائی، وہ حسب ذیل ہیں:

’’۱۔ دنیا میں تہذیبی وسیاسی غلبے سے متعلق سنت الٰہی کیا ہے؟ کیا یہ معاملہ سرتا سر انسانی تدبیر سے متعلق ہے یا اس میں تکوینی فیصلے کارفرما ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں تکوینی مشیت الٰہی اور انسانی تدبیر میں سے اصل اور اساس کی حیثیت کس کو حاصل ہے؟

۲۔ سنت الٰہی کی رو سے کسی قوم کو دنیا میں غلبہ واقتدار حق وباطل کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے یا اس کی بنیاد کسی دوسرے اصول پر ہے؟ پوری انسانی تاریخ میں جن جن قوموں اور تہذیبوں کو دنیا میں عالمی اقتدار حاصل رہا ہے، کیا وہ سب کی سب حق کی پیروکار تھیں؟ نیز ان قوموں کو یہ سیادت واقتدار کسی تکوینی سنت الٰہی کے تحت ملا تھا یا وہ مشیت الٰہی کے علی الرغم اس پر قابض ہو گئی تھیں؟

۳۔ کسی قوم کو سنت الٰہی کے تحت غلبہ واقتدار دیا جائے اور پھر وہ رو بہ زوال ہو جائے تو قانون الٰہی کے تحت اس کی بنیادی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کے اسباب اصلاً داخلی ہوتے ہیں یا خارجی؟ کیا کوئی مخالف گروہ محض اپنی سازشوں کے ذریعے سے کسی سربلند قوم کو زوال سے ہم کنار کر سکتا ہے؟ (اس ضمن میں ذالک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسہم کے اصول پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔)

۴۔ اگر کسی قوم کی، منصب سیادت سے معزولی کا فیصلہ اخلاقی اصولوں کے تحت تکوینی سطح پر ہوتا ہے تو کیا اس کو محض انسانی تدبیر سے بدلا جا سکتا ہے؟

۵۔ اگر کوئی قوم صدیوں کے عمل کے نتیجے میں زوال کا شکار ہوئی ہے تو کیا اس صورت حال کو سالوں کی جدوجہد سے بدلا جا سکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انسانی تاریخ کی سطح پر رونما ہونے والے کسی ہمہ گیر اور جوہری تغیر کو محدود وقتی نوعیت کی حکمت عملی (short term strategy) کے ذریعے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

۶۔ اگر حق کی حامل کوئی قوم سنت الٰہی کے مطابق غلبہ وسیادت کے لیے مطلوبہ اوصاف سے محرومی کے بعد زوال سے ہم کنار کر دی جائے تو کیا محض ’جہاد‘ شروع کر دینے سے اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں ’جہاد‘ غلبہ وسیادت کی ایک مکمل اسکیم کا جزو اور حصہ ہے یا محض یہ ایک نکاتی ایجنڈا ہی مطلوبہ نتیجے تک پہنچا دینے کا ضامن ہے؟

۷۔ کیا کسی قوم کو اس کے تہذیبی وسیاسی غلبے کے دورِ عروج میں طاقت کے زور پر شکست دی جا سکتی ہے؟ اس ضمن میں انسانی تاریخ کے مسلسل واقعات ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟

۸۔ مسلح تصادم کو بطور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نفع ونقصان کے تناسب اور طاقت کے توازن کے سوال کی اہمیت کتنی ہے؟ اس حوالے سے قرآن وسنت اور فقہ اسلامی ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟

۹۔ روحانی سطح پر امت میں ایمان، یقین، اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کے اوصاف اجتماعی سطح پر پیدا کیے بغیر کیا محض عسکری جدوجہد سے مغرب کے غلبہ کو امت مسلمہ کے غلبے سے تبدیل کر دینا ممکن ہے؟

۱۰۔ امت مسلمہ میں داخلی سطح پر مذہبی، سیاسی اور نسلی تفریقات کی موجودگی میں اور ٹھوس سیاسی وعمرانی بنیادوں پر ان کا کوئی حل نکالے بغیر کیا بطور امت، مسلمانوں میں وہ وحدت پیدا ہو سکتی ہے جو بطور ایک تہذیب کے، مغرب کی سیادت کو چیلنج کرنے کے لیے درکار ہے؟

۱۱۔ کیا دنیا پر مغرب کا استیلا محض عسکری اور سیاسی واقتصادی ہے یا اس کے پیچھے فکر وفلسفہ کی قوت بھی کارفرما ہے؟ حیات وکائنات اور انسانی معاشرت سے متعلق مغرب نے مذہب کی نفی پر مبنی جو افکار ونظریات پیش کیے اور متنوع انسانی علوم وفنون کی مدد سے انھیں ایک طاقتور متبادل فلسفہ حیات کے طور پر منوا لیا ہے، ان کا سحر توڑے بغیر کیا محض عسکری میدان میں نبرد آزمائی سے مغرب کے استیلا کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟

۱۲۔ اگر حق کا حامل گروہ مخصوص حالات میں مغلوب ہو جائے تو انسانی تاریخ کی روشنی میں، کیا حق کے، باطل پر غالب آنے کی یہی ایک صورت ممکن ہے کہ مغلوب گروہ کو دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے یا اس سے مختلف صورتیں بھی ممکن ہیں؟ مثلاً یہ کہ باطل کا پیروکار گروہ طاقت کے میدان میں غالب رہتے ہوئے دعوتِ حق سے مغلوب ہو کر اس کی پیروی اختیار کر لے؟ (جیسے مسیحیت کی تاریخ میں رومۃ الکبریٰ کے مسیحی مذہب کو اختیار کر لینے سے اور اسلامی تاریخ میں تاتاریوں کے حلقہ بگوش اسلام ہو جانے کی صورت میں ہوا)

۱۳۔ دنیا میں اسلام کو دوبارہ غلبہ حاصل ہونے کے ضمن میں ظہور مہدی اور نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق جن پیشین گوئیوں کی بنیاد پر ایک تصور مستقبل قائم کیا جاتا ہے، کیا وہ علمی وشرعی طور پر کسی حکمت عملی کا ماخذ بن سکتی ہیں؟ یعنی کیا اس چیز کو حکمت عملی کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کرنے کی سعی کی جائے جس میں مذکورہ شخصیات کا ظہور ہونا ہے؟ ان شخصیات کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے دجال کے ظہور کی بات بھی روایات میں بیان ہوئی ہے جس سے تمام انبیاء پناہ مانگتے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ظہور دجال کے لیے حالات کو ہموار کرنے کی شعوری کوششوں کی دین وشریعت کے نقطہ نظر سے کیا حیثیت ہوگی؟

۱۴۔ مذکورہ واقعات سے متعلق روایات کیا اتنی واضح، مربوط اور مفصل ومنضبط ہیں کہ ان سے کسی مخصوص تاریخی دور کے ظہور اور واقعات کی ترتیب کا ایک واضح نقشہ اخذ کیا جا سکے ؟ کیا تمام متعلقہ روایات علم حدیث کی رو سے اس درجے کی ہیں اور ان میں بیان ہونے والے تمام تر اجزا اور ان کی زمانی وواقعاتی ترتیب اتنی قطعی اور واضح ہے کہ ان پر باقاعدہ ایک حکمت عملی کی بنیاد رکھی جا سکے؟

۱۵۔ کسی بھی صورت حال میں دینی جدوجہد کی ذمہ داری کی نوعیت اور اہداف طے شدہ ہیں یا اضافی؟ یعنی کیا اہل ایمان ہر طرح کی صورت حال میں پابند ہیں کہ ایک ہی طرح کے اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد کو اپنی ذمہ داری تصور کریں یا یہ کہ اس کا تعلق حالات وظروف سے ہے؟ اس ضمن میں انبیائے سابقین میں سے، مثال کے طور پر، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام نے جو طریقہ اختیار فرمایا، وہ اسی طرح کے حالات میں امت محمدیہ کے لیے بھی قابل استفادہ ہے یانہیں؟ نیز کسی بھی صورت حال میں کسی ہدف کے حصول کے لیے جدوجہد کے لیے حکمت عملی کا مسئلہ منصوص، متعین او ربے لچک ہے یا اجتہادی؟

۱۶۔ کسی بھی صورت حال میں بحیثیت مجموعی پوری امت کے لیے یا کسی مخصوص خطے میں اس علاقے کے مسلمانوں کے لیے حکمت عملی متعین کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟ کیا یہ اہل ایمان کا اجتماعی حق ہے یا اس میں کسی مخصوص گروہ کو باقی امت کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اختیار حاصل ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا کسی گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے تئیں کسی ایسی حکمت عملی کا تعین کر کے اس پر عمل شروع کر دے جس کے نتائج عمومی طور پر مسلمانوں کو بھگتنا پڑیں، حالانکہ اقدام کرنے والے گروہ کو عمومی طور پر مسلمانوں کا اعتماد یا ان کی طرف سے امت کے اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا گیا ہو؟‘‘

راقم نے یہ تجویز دی کہ مذکورہ سوالات پر غور وفکر اور مباحثہ کے لیے ایک مستقل سلسلہ مجالس کا انعقاد کیا جائے اور اس میں ہر دو نقطہ ہائے نظر کے حامل اہل علم ودانش کو باہمی مکالمہ کا موقع فراہم کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ قومی سطح کے علمی وفکری ادارے اور ان کے علاوہ ہماری جامعات ان سوالات کو غور وفکر اور تحقیق کا موضوع بنانے کی ضرورت کا ادراک کریں گی، اس لیے کہ ان سوالات سے متعلق اپنے تصورات کو واضح اور یکسو کیے بغیر امت مسلمہ کے لیے دور جدید میں عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنا تو درکنار، اپنے لیے کوئی اجتماعی سمت اور رخ متعین کرنا بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

تبصرہ کریں