’’فقہائے احناف اور فہم حدیث۔اصولی مباحث’’ کا دیباچہ

فقہ حنفی کے ساتھ میرے شعوری تعارف کی ابتدا درس نظامی میں کتب حدیث کی تدریس کے ضمن میں زیر بحث آنے والے اختلافی مباحث سے ہوئی۔ احناف اور اہل حدیث کے مابین اختلافی مسائل پر مناظرہ ومجادلہ ارد گرد کے عمومی ماحول کا حصہ تھا اور یہ موضوعات بچپن سے ہی کانوں میں پڑتے رہتے تھے، لیکن بوجوہ مجھے ان بحثوں میں کوئی خاص دلچسپی پیدا نہیں ہو سکی۔ البتہ جب میں ۱۹۹۱ءمیں مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہوا تو ایک موقع پر مدرسہ میں طلبہ کی انجمن نے تقلید اور عدم تقلید کے موضوع پر ایک تربیتی مناظرہ کا اہتمام کیا جس میں، میں نے ترک تقلید کے نمائندے کے طور پر حصہ لیا۔ غالباً یہ وہ پہلا مرحلہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ ماحول کے زیر اثر ہم جن باتوں کو قبول کیے ہوئے ہیں، ان پر نظر ثانی کی کافی گنجائش موجود ہے۔ چنانچہ ایک تدریج کے ساتھ میرا رجحان احناف اور اہل حدیث کے معروف اختلافی مباحث میں اہل حدیث کی طرف بڑھتا چلا گیا اور یہ تاثر کافی پختہ ہو گیا کہ کم سے کم ان مباحث میں جو ہمارے ماحول میں بحث وجدال کا موضوع ہیں، احناف کا موقف دلائل کے اعتبار سے کمزور ہے۔
اس رجحان کے زیر اثر میں نے آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین وغیرہ مسائل میں اہل حدیث کے مسلک پر عمل شروع کردیا اور مختلف حضرات سے ان موضوعات پر بحث ومباحثہ بھی کرتا رہا۔ غالباً موقوف علیہ کے سال میں مشکوٰة المصابیح کے پرچے میں کسی سوال کے جواب میں، میںنے تقلید جامد کے خلاف اپنے تاثرات کا سخت الفاظ میں اظہار کیا جس پر استاذ گرامی مولانا عبد القدوس خان قارن کی تنبیہ سننی پڑی۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک استاذ نے میرے بعض رجحانات کی شکایت تحریری طور پر دادا محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ تک پہنچائی جنھوں نے ایک مختصر خط میں مجھے نصیحت کرنے کے علاوہ اپنی خدمت میں بھی طلب فرمایا۔ بہرحال صورت حال میں، اللہ کا شکر ہے کہ کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی اور میری باتوں کو ایک نوجوان کے عبوری اور وقتی ذہنی رجحانات سمجھ کر گوارا کیا جاتا رہا، بلکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی علیہ الرحمہ نے تو ایک موقع پر کمالِ دل نوازی سے یہ بھی فرما دیا کہ اگر تم تحقیق کی بنا پر بعض مسائل میں امام ابوحنیفہ کے بجائے دوسرے ائمہ کی رائے کو ترجیح دو تو ایسا کرنے سے تم حنفیت سے خارج نہیں ہو جاﺅ گے۔ اسی دَور میں دونوں بزرگوں، حضر ت مولانا سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہما اللہ نے باہمی مشورے سے مجھے مدرسہ نصرة العلوم میں درس نظامی کی تدریس کی ذمہ داری بھی سونپ دی جو ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۶ء تک جاری رہی۔
برادرم سید مشتاق علی شاہ کی تحریک پر ۱۹۹۵ میں (جو احناف اور اہل حدیث کے اختلافی مسائل سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور اُس وقت مدرسہ نصرة العلوم کے شعبہ نشر واشاعت کے ناظم تھے) میں نے امام ابوحنیفہ کی آرا پر مشہور محدث امام ابوبکر ابن ابی شیبہ کے اعتراضات کا علمی مطالعہ کیا جس کا نتیجہ میری اولین تصنیف ”امام اعظم ابو حنیفہ اور عمل بالحدیث“ کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کی ابتدا مشتاق شاہ صاحب کی اس تجویز سے ہوئی تھی کہ چونکہ ابن ابی شیبہ کے اعتراضات کا مکمل جائزہ اردو زبان میں موجود نہیں، اس لیے میں الدکتور محمد قاسم عبدہ الحارثی کے تحقیقی مقالہ ”مکانة الامام ابی حنیفة بین المحدثین“ کے اس باب کا اردو میں ترجمہ کر دوں جس میں انھوں نے ابن ابی شیبہ کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا اختصار کے ساتھ جواب دیا ہے۔
میں نے ترجمہ شروع کیا تو محسوس ہوا کہ جوابات ایسے مختصر اسلوب میں دیے گئے ہیں کہ ان سے اہل علم ہی مستفید ہو سکتے ہیں، جبکہ عام قارئین پر بات پوری طرح واضح نہیں ہو پائے گی۔ چنانچہ خیال ہوا کہ براہ راست مطالعے کی روشنی میں ہر مسئلے سے متعلق احناف کا موقف اور اس کا بنیادی استدلال عام فہم اسلوب میں اردو میں پیش کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے لمبی چوڑی تحقیق اور اصل مآخذ کی مراجعت کا اہتمام کیے بغیر زیادہ تر مولانا ظفر احمد عثمانی کی ’اعلاءالسنن‘ اور اختلافی مباحث پر بعض اساتذہ کی درسی تقاریر (مثلاً شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدر کی ’خزائن السنن‘ اور مولانا محمد تقی عثمانی کی ’درس ترمذی‘ وغیرہ) کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کتاب کی تصنیف شروع کر دی اور کوئی نو دس ماہ کے عرصے میں کتاب کا مسودہ تیار ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر مجھے علامہ کوثری کی مشہور تصنیف ’النکت الطریفة‘ دستیاب نہیں ہو سکی اور میری کتاب کے شائع ہونے کے کئی سال بعد یہ کتاب دیکھنے کو ملی۔
مسودہ کی تسوید کے دوران میں ہی مشتاق شاہ صاحب نے حضرت صوفی صاحبؒ سے اس کا ذکر کر دیا تھا جس پر وہ بے حد خوش ہوئے اور کتاب کو مدرسہ کے شعبہ نشر واشاعت کے زیر اہتمام شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کتاب کے نام سے متعلق حضرت صوفی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا تو پہلا نام ”امام ابوحنیفہ اور مخالفت حدیث“ ذہن میں آیا، لیکن صوفی صاحب نے اسے پسند نہیں کیا۔ اس کے بعد میں نے ”امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث“ کا عنوان تجویز کیا تو انھوں نے فوراً اس کی تائید فرمائی اور یہی عنوان طے پا گیا۔ کتاب چھپ کر آئی تو دادا محترم حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے نہایت شفقت سے اس کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا اور پوری کتاب میں کتابت اور املا کی اغلاط کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر راہ نمائی کے لیے مختصر تبصرے بھی درج کیے اور یہ نسخہ میرے ریکارڈ کے لیے مجھے عنایت کر دیا۔
مذکورہ کتاب کی تصنیف کے بعد اگرچہ جملہ مسائل میں احناف کے استدلال پر پورا اطمینان تو حاصل نہ ہو سکا، تاہم حنفی فقہا کے اجتہادات کے احادیث کے خلاف ہونے کا تاثر زائل ہو گیا اور علمی طور پر یہ بات بہت واضح ہو گئی کہ احادیث سے استدلال واستنباط کے ضمن میں احناف کا منہج مضبوط بنیادوں پر استوار ہے جس سے فقہ واجتہاد کے دائرے میں اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، لیکن اس پر حدیث کی مخالفت کا الزام کسی صورت نہیں دَھرا جا سکتا۔ اس ضمن میں یہ احساس بھی ہوا کہ احناف کے ہاں احادیث کے رد وقبول اور تعبیر وتشریح کے ضمن میں جن راہ نما اصولوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، انھیں مستقل طور پر واضح کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ مخصوص اجتہادی نتائج جن فقہی اصولوں کی پیروی سے پھوٹتے ہیں، ان کو سمجھے بغیر فروعی واطلاقی مسائل میں کسی بھی فقہی مکتب فکر کے نقطہ نظر اور استدلال کو کماحقہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
میرے ذہن میں اس حوالے سے حنفی منہج فکر کے جو بنیادی پہلو واضح ہوئے، میں نے ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۲ء میں انھیں اپنے بعض مضامین کی صورت میں مرتب کیا جو ماہنامہ ”الشریعہ“، ماہنامہ ”نصرة العلوم“ اور ماہنامہ ”اشراق“ میں شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک مضمون جو ”علم حدیث میں درایتی نقد کا تصور“ کے عنوان سے کسی قدر کمی بیشی کے ساتھ مذکورہ تینوں مجلات میں شائع ہوا، اس میں اکابر صحابہ، جلیل القدر محدثین اور فقہائے حنفیہ ومالکیہ کی آرا کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ صحت سند، روایت کی تحقیق کا حتمی معیار نہیں، بلکہ سنداً صحیح ہونے کے بعد بھی روایت کے متن کو مختلف علمی وعقلی اصولوں کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کے اہل حدیث حضرات کے نزدیک چونکہ محدثین کے نتائج تحقیق بھی حدیث ہی کا درجہ رکھتے ہیں اور محدثین کی صحیح قرار دادہ کسی حدیث پر درایتاً کوئی سوال اٹھانا انکار حدیث کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے، اس لیے مذکورہ تحریر اہل حدیث احباب کے لیے بطور خاص پریشانی کا باعث بنی۔ چنانچہ بعض اہل حدیث جرائد میں شائع ہونے والی تنقیدوں کے علاوہ ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی نے میرے اس مضمون میں بیان کردہ نقطہ نظر اور پیش کردہ مثالوں کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی بنیاد بنایا اور متعلقہ مباحث کے حوالے سے اہل حدیث کا نقطہ نظر واضح کر کے جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
مذکورہ مضامین کے علاوہ احادیث وآثار کے حوالے سے ائمہ احناف کے زاویہ نظر اور اصولی موقف کی وضاحت میں میری بعض تفصیلی تحریریں حال ہی میں بھارت کے معروف علمی جریدہ ”معارف“ میں شائع ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے اور مزید کئی پہلو دادِ تحقیق کے متقاضی ہیں، تاہم میں نے محسوس کیا کہ پچھلے پندرہ سال میں مجھے جن بنیادی پہلووں پر متفرق تحریریں لکھنے کا موقع ملا ہے، انھیں یکجا مرتب کر دینا افادیت سے خالی نہیں ہوگا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان تمام تحریروں کو جمع کر کے ان پر نظر ثانی کی ہے اور مباحث کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ وہ ایک مربوط کتاب کا حصہ بن سکیں۔ نظر ثانی اور ترتیب نو کے عمل میں قدرتی طور پر بہت سے نئے مباحث اور مثالوں کا اضافہ بھی ہوتا چلا گیا ہے اور یوں اس ساری سعی وکاوش نے وہ شکل اختیار کر لی ہے جو زیر نظر کتاب کی صورت میں قارئین کے سامنے ہے۔ اس کام کی تکمیل میں میرے ذاتی داعیے کے علاوہ برادرم محمد فہد کی تحریک کا بھی کافی حصہ ہے جنھوںنے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن اپنے ادارے ”کتاب محل“ سے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر ان کی مسلسل یاد دہانی اس کی تکمیل کے لیے مہمیز کا کام کرتی رہی۔
کئی سال قبل میں نے ”امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث“ کی نئی اشاعت کی غرض سے اس پر نظر ثانی شروع کی تو محسوس ہوا کہ معاملہ نظر ثانی سے آگے بڑھ کر ایک مستقل اور نئی تصنیف کا متقاضی ہے، چنانچہ میں نے براہ راست اصل مآخذ کی روشنی میں وسیع تر مطالعہ اور تحقیق کے اہتمام کے ساتھ ابن ابی شیبہ کے اعتراضات اور ان کے جواب میں حنفی فقہا کے موقف اور استدلال کا جائزہ لینا شروع کیا اور درمیان میں طویل وقفے آنے کے باوجود یہ نئی تصنیف بھی کم وبیش ستر فی صد مکمل ہو چکی ہے۔ میںنے اس کا نام ”فقہائے احناف اور فہم حدیث“ تجویز کیا ہے اور اللہ کو منظور ہوا تو تکمیل کے بعد یہ جلد قارئین کے سامنے آجائے گی۔ زیر نظر تصنیف چونکہ مذکورہ کتاب کے مباحث کے لیے ایک تمہیدی مطالعے کا کام دے گی، اس وجہ سے میں نے اس کے لیے ”فقہائے احناف اور فہم حدیث- اصولی مباحث“ کا عنوان منتخب کیا ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کتاب کے مندرجات میں سے مفید اور کار آمد باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا کر دے اور سقیم چیزوں کے ضرر سے مصنف اور قارئین دونوں کو محفوظ رکھے۔ اللھم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ینفعنا وزدنا علما۔ آمین

’’فقہائے احناف اور فہم حدیث۔اصولی مباحث’’ کا دیباچہ” پر ایک تبصرہ

تبصرہ کریں